سورة الأحقاف - آیت 29

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ہم نے جنوں (ف 2) میں سے کئی شخص تیری طرف متوجہ کردیئے کہ قرآن سنیں ۔ پھر جب وہ اس کے پاس حاضر ہوئے تو آپس میں بولے کہ چپ رہو ۔ پھر جب پڑھنا تمام ہوا تو اپنی قوم کی طرف ڈراتے ہوئے واپس لوٹے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جنات کا وجود ف 2: جنوں کے متعلق آج سے پہلے اہل تاویل کا مسلک یہ تھا ۔ یہ انسانوں کا ایک گروہ ہے جو عام طور پر پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتا ہے ۔ انہیں لوگوں نے طائف سے واپسی کے وقت قرآن کو سنا *۔ قوم جن نے تعجب اور حیرت سے اپنی قوم کو قرآن کے سننے کا مژدہ سنایا ۔ ابن کو جن اس مناسبت سے کہا گیا ۔ کہ یہ لوگ عام لوگوں کی نظروں پے پوشیدہ اور مستتر رہتے ہیں ۔ اور شہر والوں سے ان کے تعقات زیادہ نہیں ہوتے ۔ مگر یہ تاویل اب بالکل مہمل ثابت ہوچکی ہے ۔ کیونکہ جو مجبوری اس مسئلہ میں تھی ۔ اب وہ دور ہوگئی ۔ تجربات کی روشنی میں معلوم ہوگیا ہے ۔ کہ جنات ایک مستتر اور نظر نہ آنے والی مخلوق ہے ۔ اب خود یورپ نے جو دانش وعقل کا سب سے زیادہ مدعی ہے ۔ جنات کے وجود کو تسلیم کرلیا ہے ۔ بلکہ ان کے وظائف اور اعمال تک معلوم کرلیا ہے ۔ جدید تحقیقات یہ ہے ۔ کہ جن ایک لطیف ذی روح مخلوق ہے جس کا وزن ہے ۔ سوچنی اور سمجھتی ہے ۔ اور جس کی قوتیں اور حواس انسان سے زیادہتیز اور بڑھ کر ہیں ۔ وہ دیکھی نہیں جاسکتی ۔ البتہ جب وہ عام مادی اشیاء کو اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ تو اس وقت اس کے وجوہ کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ تاویل کہ جن انسان ہی کی ایک صنف کا نام ہے ۔ نہ صرف واقعات کے اعتبار سے غلط ہے ۔ بلکہ صفت قرآن اور حدیث کے اعتبار سے بھی غلط ہے اور اصل میں یہ نتیجہ ہے ۔ کہ ایک طرح کی مرعوبیت اور شوق اجتہاد کا *۔ غرض یہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو مکے والوں نے تسلیم نہ کیا تو آپ برداشتہ خاطر ہوکر طائف کی طرف چل دیئے ۔ کہ شاید ان لوگوں کو قبول ہدایت کی توفیق حاصل ہو ۔ جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے اور زیادہ بدبختی (محرومی) اور شقاوت کا ثبوت دیا ۔ وہاں سے بھی مایوسانہ لوٹ کر آرہے تھے ۔ کہ راستہ میں جنوں کے گروہ نے قرآن کی سماعت کی ۔ اور تسلیم کرلیا ۔ کہ یہ اللہ کا پیغام ہے ۔ بلکہ قرآن کے داعی بھی بن گئے ۔ چنانچہ جب یہ قوم کے پاس گئے ۔ تو انہوں نے برملا کہا ۔ کہ ہم نے ایک عجیب صحیفہ رشدوہدایت کو سنا ہے ۔ جو موسیٰ کے بعدنازل ہوا ہے ۔ اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور حق وصداقت کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔ صراط مستقیم کی جانب بلاتا ہے ۔ اور اللہ کی سچی آواز ہے اے قوم ضرور اس کو قبول کرلو ۔ خدا تمہارے گناہوں کو اس کے صلہ میں بخش دیگا ۔ اور آخرت کے دردناک عذاب سے بچا رہیگا ۔ یاد رکھو اگر تم نے نہ مانا ۔ تو یہ تمہاری بدقسمتی ہوگی ۔ اللہ کا دین بہر آئینہ پھیلے گا ۔ اور تمہاری پوری قوت بھی اس کو روک دینے پر قادر نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ یجحدون ۔ جھود سے ہے ۔ یعنی انکار کرتا *۔ نفرا ۔ ایک جماعت *۔