وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور تو عاد کے بھائی (ہود) (ف 2) کو یاد کر جب اس نے احقاف میں (کہ ملک یمن میں ایک میدان ہے) اپنی قوم کو ڈرایا اور ہود (ف 3) کے پہلے اور پیچھے بہت ڈرانے والے گزر چکے ہیں ۔ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو میں بڑے دن کے عذاب سے تمہاری نسبت ڈرتا ہوں
حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم ف 2: تذکیر یا یام اللہ کے اصول کے مطابق گزشتہ قوموں کے حالات بیان فرمائے ہیں ۔ کہ کیونکر نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آیا ۔ حضرت ہود کا ذکر تھا ۔ کہ انہوں نے آکر اپنی قوم کو بتوں کی پرستش سے روکا ۔ اور کہا ۔ کہ اگر تم ایک اللہ کی عبادت نہیں کرو گے ۔ اس خالق ارض وسما کے سامنے نہیں جھکوگے ۔ اور اپنی بندگی اور عبودیت کا ثبوت نہیں دوگے ۔ تو مجھے ڈر ہے کہ اس یوم عظیم میں تمہارے لئے عذاب مقدر نہ ہو ۔ ایسا نہ ہو تم لوگ اپنی گمراہی کی وجہ سے اللہ کے غضب وخشم کو آزماؤ۔ انہوں نے بجائے اس کے کہ اس خیر وبرکت کی تعلیم کو تسلیم کرلیتے ۔ اور عقیدہ توحید کو مان لیتے ۔ صاف انکار کرکے کہہ دیا ۔ کیا آپ ہم سے ہمارے معبودوں چھڑاتے ہیں ۔ اور چاہتے ہیں ۔ کہ ہم ان دیوتاؤں سے بدظن ہوجائیں ۔ جن کو برسوں پوجا ہے ۔ اور عمریں گزری ہیں ۔ کہ انہیں کی عبادت کرتے چلے آئے ہیں *۔ جب سے ہم نے آنکھیں کھولی ہیں ۔ باپ دادا کو انہیں کا حلقہ بگوش پایا ہے ۔ آج آپ کے کہنے پر ان دیرینہ تعلقات ارادت کو کیونکر چھوڑ دیں ۔ اور کیونکر گوارا کرلیں ۔ کہ یہ معبود ہم سے ناراض ہوجائیں ۔ آپ کو اختیار ہے ۔ آپ اپنی سی کر دیکھیں ۔ اور اللہ کو دعوت دیں کہ وہ ہمیں اس گستاخی کی پاداش میں عذاب سے دو چار کرے ۔ اگر واقعی آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ تو پھر عذاب کو ہم پر ضرور نازل کروائیے ۔ ہم اس کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کی اس جہالت اور بےوقوفی پر ترس کھا کر کہا ۔ کہ پورا علم تو خدا ہی کو ہے ۔ کہ وہ کب تم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے ۔ میں تو اس کا پیامبر ہوں ۔ اور میرا کام تو صرف یہ ہے ۔ کہ اس پیغام کو تم تک پہنچادوں ۔ جس کو لے کر میں مبعوث ہوا ہوں ۔ اور حتیٰ الامکان کوشش کروں ۔ کہ تم اللہ کی ناراضی سے بچ جاؤ۔ مگر میں دیکھتا ہوں ۔ کہ تم بالکل جاہل ہو ۔ اور خود اپنے نفع ومضرات سے آشنا نہیں ہو ؟ تم ضرور عذاب کو حاصل کرکے رہوگے ۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے دیکھا ۔ کہ بادل افق سے اٹھا ۔ اور ان کی وادیوں کے بالکل مقابل آگیا ۔ اس پر یہ خوش ہونے لگے ۔ کہ خوب بارش ہوگی ۔ اور ہمارے کھیت سر سبز وشاداب ہوجائیں گے ۔ حالانکہ وہ عذاب تھا ۔ اور ان کی جلد بازی کا نتیجہ تھا ۔ بادل کے ساتھ تیز اور تند ہوا چلی ۔ اور ان کی آبادیوں چند لمحوں میں ہلاک ہوکر رہ گئیں *۔ حل لغات :۔ عذاب الھون ۔ ذلت ورسوائی کی سزا * تفسقون ۔ فس سے ہے جس کے معنے حدود اخلاق اور شریعت سے تجاوز کرنے کے ہیں *۔ عارض ۔ بادل ۔ ابر * تلھر ۔ ہلاک کردے گا ۔ ان میر سے ہے * مکنھم ۔ سکنت اور قوت عطا کررکھی تھی *۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کو ہم نے زمین میں وہ قوت اور ملک میں وہ اختیارات دے رکھے تھے ۔ کہ تم اس سے بہرہ ور نہیں ہو ۔ پھر جب انہوں نے ان اختیارات سے صحیح صحیح کام نہ لیا ۔ اور حق وصداقت کی طرف سے انہوں نے اپنی توجہ کو دوسری طرف پھیر لیا ۔ تو اللہ کی ناراضی شکار ہوگئے ۔ اس طرح تمہارے لئے بھی یہ ممکن ہے ۔ کہ اگر تم توبہ نہ کرو ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو تسلیم نہ کرو ۔ تو باوجود تمہاری دولت مندی کے تم کو حرف غلط کی طرح مٹادیا جائے *۔