سورة الأحقاف - آیت 3

مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہم نے جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو پیدا کیا ہے تو ایک ٹھیک کام کے لئے اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے پیدا کیا ہے اور جو کافر ہیں وہ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عالم بےمقصد نہیں ف 1: قرآن حکیم بار بار اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے ۔ کہ یہ کائنات جو آسمانوں اور زمین کی وسعتوں سے تعبیر ہے ۔ یونہی بلا مقصد اور بغیر غرض کے نہیں پیدا کی گئی ہے ۔ یہ مادہ کے اندھے تصورات کا نتیجہ نہیں ہے ۔ اس کو محض فطرت کے مجازفہ کے نام سے نہیں موسوم کیا جاسکتا ۔ یہ دینی ساخت کے اعتبار سے اس درجہ کامل اور معقول ہے ۔ کہ دیکھنے والا بادنیٰ تامل پکار اٹھتا ہے ۔ کہ یہ کس مستاق اور صاحب حکمت وعظمت کی کارفرمائیاں ہیں ۔ اس تصویر میں ایسی ہنرمندی اور تخیل کا اظہار ہے کہ بجز خلاق اکبر پر ایمان لے آنے کے اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ۔ آپ غور فرمائیے ۔ کہ دنیا میں یہ جو حسن وجمال ہے ۔ کہاں سے آیا ہے ۔ کیا یہ مادہ کی اعجازنمائی ہے ؟ اور کیا آپ اس چیز کو عقل تسلیم کرسکتے ہیں ۔ کہ بےشعور مادے میں یہ سلیقہ ہوسکتا ہے ۔ کہ وہ اس دنیائے بسیط کو اس طرح سنواردے ۔ اس عالم رنگ وبو کو دیکھ کر یہ استدلال خود بخود ذہن میں آجاتا ہے ۔ کہ کوئی بڑی حسین ذات ہے ۔ جس نے آفتاب وماہتاب کو پیدا کیا ہے ۔ اور بڑی عقل وحکمت والی ذات ہے جس نے ہر چیز کو ایک خاص استفاءے کسے قالب میں ڈھال رکھا ہے ۔ قرآن کا مطالبہ ہے ۔ کہ تم لوگ اس غرض وغایت کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ جو دنیا کی تعمیر اور تخلیق کا موجب ہے ۔ اور منکرین کی طرح دانستہ اس سے اعراض نہ کرو ۔ کیونکہ یہ زندگی اور زندگی کے تمام مظاہرات ایک وقت مقررہ تک ہیں *۔ حل لغات :۔ بالحق ۔ یعنی غرض ومقصد کے ساتھ * اجل مسمی ۔ معیاد مقرر کے لئے * شرک ۔ ساجھا * اثرۃ ۔ مستول *۔