سورة الزخرف - آیت 18

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا جو شخص (ف 1) کہ زبور میں پالا جائے اور وہ جھگڑے میں بات نہ کہہ سکے (یعنی لڑکی) ؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ کی بٹیاں نہیں ہیں ف 1: مکے والوں میں کچھ لوگ ایسے تھے ۔ جو حمق وجہالت کی وجہ سے فرشتوں کو کہتے تھے ۔ کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ ان آیات میں اس مسلک کی تردید فرمائی ہے ۔ ارشاد ہے : کہ یہ اللہ کی کس درجہ ناشکر گزاری ہے ۔ اور یہ کس درجہ غلط اتہام ہے ۔ کیا تم لوگ بچیوں کے انتساب سے خوش ہوتے ہو ۔ تمہاری حالت تو یہ ہے ۔ کہ اگر تم یہ سن لو ۔ کہ تمہارے ہاں لڑکی توالد ہوئی ہے تو تمہارا چہرہ مارے غصہ کے سیاہ پڑجاتا ہے اور تم اس وقت اپنے جذبات غیظ وغضب کو چھپا نہیں سکتے ہو ۔ پھر جب تمہارے نزدیک ان کا انتساب عمدہ اور قابل تعریف نہیں ہے ۔ تو پھر میری جانب ان کو منسوب کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ کیا میں ان کمزور اور ناتوان عورتوں کو اپنی بیٹیاں بناؤں گا ۔ جو بناؤ سنگار کی خواہش میں پلتی اور جوان ہوتی ہیں ۔ اور جن میں یہ استعداد بھی نہیں ہوتی کہ کھل کر بات چیت بھی کرسکیں ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ اگر میرے اولاد ہوتی تو تمہارے معتقدات کے مطابق اولاد ذکور ہونا چاہیے تھی ۔ کیونکہ عورتوں کو تم قدرومنزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہو ۔ ان آیتوں سے غرض یہ نہیں ۔ اور ان کا احتساب باپ کے لئے وجہ رسوائی ہے ۔ بلکہ ان کے طرز عمل کے تضاد کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اور یہ بتایا ہے کہ یہ کیا تماشا ہے ۔ کہ ایک طرف تو تم ان کو ذلیل سمجھتے ہو ۔ اور دوسری جانب ان کی پوجا کرتے ہو ۔ اور ان کو خدا کی جانب منسوب کرتے ہو ۔ کیا یہ عقیدہ اور عمل کا قضاء تمہارے لئے قابل غور نہیں ہے *۔ اومن تبسوف الحینۃ کہہ کر حقیقت واقعی کے مقصود کا اظہار کیا ہے ۔ کہ عورتوں کو زیورات کابہت زیادہ شوق ہوتا ہے اور بےچاری اظہار جذبات پر قادر نہیں ہوتیں ۔ اس لئے ان کا خدا کی بیٹیاں ہونا ۔ تو اور بھی بعیداز عقل ہے *۔ حل لغات :۔ الخصام ۔ جھگڑا ۔ بحث ومباحثہ *۔