فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
سو تو اسی کی طرف بلا اور قائم رہ جیسے تجھے حکم ملا ہے اور اس کی خواہشوں کا پیرونہ ہو اور کہہ کہ میں ہر کتاب پر جو اللہ نے نازل کی ہے ایمان لایا اور مجھے حکم ملا ہے کہ تمہارے بیچ انصاف کروں ۔ اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ۔ ہم میں اور تم میں کچھ جھگڑا نہیں اللہ ہم سب کو جمع کریگا ۔ اور اسی کی طرف پھر جانا ہے۔
پیغمبر کا استقلال (ف 2) ارشاد ہے کہ ان لوگوں کی محرومی اور مخالفت کی وجہ سے آپ کے پیغمبرانہ عزائم میں کوئی کمزوری نہیں پیدا ہونی چاہیے ۔ آپ بدستور اللہ کی طرف ان کو بلاتے رہیے ۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے پائے استقلال میں ذرہ بھی لغزش پیدا ہوجائے ۔ آپ ان کے جذبات اور خیالات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کریں ۔ بس یہی کہتے جائیے کہ میرا ایمان تو اللہ کی کتاب پر ہے ۔ میں اسی کو مانتا ہوں اور مکلف ومامور ہوں کہ اسی کی روشنی میں تمہارے درمیان عادلانہ طرز عمل اختیار کروں ۔ اللہ ہمارا تمہارا پروردگار ہے ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے ۔ اور اصولاً تم میں ہم میں کوئی جھگڑا نہیں ۔ اللہ ایک وقت مقررہ پر ہم سب کو جمع کریگا ۔ اس کے حضور میں سب کو جانا ہے ۔ وہاں جاکر معلوم ہوگا کہ کون حق وصداقت پر ہے اور کون گمراہ ہے ۔ یہ انداز بیان گو انشاء کا ہے مگر مقصود خبر ہے ۔ غرض یہ ہے کہ پیغمبر سے تم غلط نوع کی توقعات نہ رکھو ۔ وہ برابر دعوت الی اللہ میں رہیگا ۔ اور عزیمت واستقامت کے ساتھ اللہ کے پیغام کو تم تک پہنچائیگا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہاری خواہشات نفس کی پیروی کرے ۔