سورة فصلت - آیت 50

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور اگر ایک تکلیف کے بعد جو اس کو لگی ہوئی ہو ہم اپنی طرف سے اسے رحمت (ف 2) چکھائیں تو کہتا ہے کہ یہ میرے لئے ہے اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہو اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا ۔ تو میرے لئے اس کے یہاں بھلائی ہے سو ہم کافروں کو دکھائیں گے جو وہ کرتے تھے اور ہم انہیں ایک گاڑھا عذاب چکھائیں گے۔ (ف 1)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) قرآن حکیم میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ان تمام نفسیاتی کمزوریوں سے آگاہ ہے جو انسان میں پائی جاتی ہیں اور ایک ایک کرکے ان سب چیزوں کو بیان کرتا ہے تاکہ لغزش کے تمام مواقع اسے معلوم رہیں ۔ اور وہ کسی حالت میں بھی سچی راہنمائی سے محروم نہ رہے ۔ فرمایا کہ یہ انسان اپنی فلاح وبہبود کے لئے ہمیشہ دست بدعا رہتا ہے اور ترقی کی خواہش سے اس کا کبھی جی نہیں بھرتا ۔ پھر جب اس کی توقعات کے خلاف ہوتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد پھر اللہ آسائش وتنعم کے سامان مہیا کردے تو کبرونخوت کے مرض میں مبتلا ہوکر کہنے لگتا ہے کہ یہ سب متاع راحت میری عقلمندی اور مساعی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہ قیامت کا مسئلہ محض ڈھکوسلہ ہے ۔ میں اپنے اعمال کے لئے اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں ۔ اور اگر وہاں جانا پڑا تو بہرآئنہ وہاں بھی اچھی ہی جگہ مل کر رہے گی ۔ ارشاد فرمایا کہ یہ وہم باطل ہے وہاں سرمایہ داری کا اختیار نہ ہوگا ۔ وہاں صرف اعمال دیکھے جائیں گے ۔ اور اسے لوگ جو سرمایہ داری کے نشہ میں اللہ کا انکار کردیتے ہیں شدید ترین عذاب کے مستحق ہونگے ۔ اور ان میں سے کوئی رعایتی سلوک نہیں روارکھا جائیگا۔