وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر شیطان کے چوک (ف 1) لگانے سے تجھ کو کبھی چوک لگے ، تو اللہ کی پناہ پکڑ بےشک وہی سنتا جانتا ہے
خلق عظیم اس سے قبل کی آیت میں صبر و برداشت کی تلقین فرمائی تھی اور یہ کہا تھا کہ منکرین کی برائیوں کا جواب حسن سلوک سے دو اپنی روحانیت سے دو ۔ اس میں یہ بتایا ہے ۔ کہ یہ کام آسان نہیں ہے اس کے لئے استقامت اور صبر کی ضرورت ہے وہ لوگ اس خلق عظیم سے بہرہ مند ہوتے ہیں جنہوں نے مواجب ومالک سے حصہ وافر پایا ہو ۔ اس سے معلوم ہوا ۔ کہ جہاں تک سختی اور برائی کے جواب دینے کا تعلق ہے بہترین طریق یہی ہے ۔ کہ طرز عمل بالکل خلاف اختیار کیا جائے ۔ دشمن مشکلات سے پیدا کرے تو اس کے لئے آسانیاں بہم پہنچائی جائیں ۔ دکھ معاند اور تکلیف کا سبب ہو تو اس کے لئے راحت وسکون کی آرزو کی جائے ۔ مخالف مادی آفات نفرت سے مسلح ہو ۔ تو اس کا جواب روح کی تزئین و آرائش سے دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حریف اخلاقی عظمت سے متاثر ہوکر اپنے کئے پر پچھتاتا ہے ۔ اور دل کی گہرائیوں سے ندامت کا اظہار کرتا ہے ۔ اس وقت اس کی دشمنی دوستی اور مودت کے جذبات سے بدل جاتی ہے ۔ شیطان کی وسوسہ اندازی ف 1: نزع کے لغوی معنے کسی شئے سے شرارت کی غرض سے تعرض کرنا ہے ۔ جیسے کہ ارشاد فرمایا ۔ من بعد ان نرغ ال شیطان بینی وبین اخوتی اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دل میں وسوسہ اندازی کی تحریک کی جائے ۔ غرض یہ ہے کہ آپ اپنے مخالفین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ۔ اور ان کی برائیوں کا جواب اپنی روحانی اخلاص سے دیں اور اگر شیطان کی جانب سے آپ کے دل میں تحریک ہوانتقام کی ۔ یا ان پر بھی سختی اور تشدد کرنے کی ۔ تو پھر حتی الامکان اس جذبے کے تاثر سے بچنے کی کوشش فرمائیے اور خدا کی پناہ میں آجائیے اور یہ دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اس باب میں کیا ہیں ۔ یہ درست ہے کہ اسلام ناگزیر حالات میں تشدد اور سختی کی نہ صرف اجازت ہی دیتا ہے بلکہ اس کو بہتر اور ضروری قرار دیتا ہے ۔ مگر یہ مقصد نہیں ہے درحقیقت مدعا یہ ہے ۔ کہ امن وطمانیت کو برقرار رکھتے ہوئے لوگ اسلام کی برکات سے استفادہ کریں اور معلوم کریں کہ اس مذہب عقل ودانش میں ان کے لئے کہاں تک روحانی تسکین کا سامان موجود ہے یہ آیت کا وہ مفہوم ہے جس کا تعلق سیاق سے ہے اور اگر اس کو سیاق سے منقطع کرلیا جائے ۔ جب بھی ہمارے نزدیک کوئی قابل اعتراض مفہوم پیدا نہیں ہوتا ۔ ہم عصمت انبیاء کے ان معنوں میں قائل نہیں ہیں ۔ کہ انبیاء میں انسانی فطرت نہیں ہوتی ۔ اور وہ بشری تقاضوں سے دو چار نہیں ہوتے ۔ بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ اس پاک گروہ میں بھی نفس کی خواہشات ہوتی ہیں ۔ جذبات ہوتے ہیں ۔ اور شاید زیادہ شدت کے ساتھ مگر اپنے مضبوط اخلاق اور مستحکم سیرت کی وجہ سے یوں گناہوں کے چنگل سے نکل جاتے ہیں جس طرح تیر کمان سے ؎ ہزار دم سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے اس لئے اس آیت کا مفہوم واضح ہے کہ بتقاضائے بشری آپ کے دل میں بھی وساوس پیدا ہوتے ہوں گے مگر آپ ذہنی نبوی کے باعث ان پر غالب آجاتے ہیں ۔ اور خدا کی حفاظت کفالت کو حاصل کرلیتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ یہ انداز بیان گو بطرز انشاء ہے ۔ مگر مراد اس سے خبر ہے ۔ وھوفی القران کثیر حل لخات : یلحدون ۔ الحاد سے ہے ۔ بمعنے کجروی ۔