سورة غافر - آیت 64

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرارگاہ اور آسمان کو خیمہ بنایا اور تمہاری صورت بنائی ۔ پھر تمہاری صورتیں اچھی بنائیں اور ستھری (ف 1) چیزوں میں سے انہیں رزق دیا ۔ یہ اللہ ہے تمہارا رب سو اللہ بڑی برکت والا جو سارے جہان کا رب ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خالق کون ہے ؟ ف 1: قرآن حکیم نے انسانی توجہ کو مبذول کیا ہے ۔ کہ وہ کائنات کی عظمت ورفعت کو دیکھے ۔ اور غور کرے ۔ کہ یہ عریض وبسیط زمین کس نے ہمارے پاؤں تلے بچھا دی ہے ۔ اور کس نے نیلگون آسمان پیدا کیا ہے ۔ اور کون ہے جس نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ہے ۔ اور کس نے ہماری تمام ضروریات پوری کی ہیں ۔ کیا بتوں نے اور پھتر کی بےجان مورتیوں نے ایسا کیا ہے کیا احبار ورہبان کی یہ صنعت کاری ہے ۔ یا قبروں اور لاشوں کی یہ کار فرمائی ہے ؟ اگر انہیں سے کسی نے بھی یہ نہیں کیا ۔ اور یہ بات کسی کیا ختیار میں نہیں ہے ۔ تو پھر سوائے رب العالمین کے اور کون عبادت اور پرستش کا مستحق ہوسکتا ہے ۔ اور کون ہے جس کا آستانہ جلال وعظمت اس سے زیادہ قابل وقعت ہے ۔ یہ ملحوظ رہے کہ خدا نے انسان کو اس کائنات میں سب سے زیادہ بہتر حالت میں پیدا کیا ہے ۔ تاکہ یہ احساس خودداری سے بہرہ مند ہو ۔ اور اس کو معلوم ہو کہ اپنی فطرت اور شناخت کے اعتبار سے یہ مجبور ہے ۔ کہ کائنات میں کسی کے سامنے نہ جھکے اور اپنے کو تمام مظاہر قدرت سے بالا اور برتر سمجھے مگر یہ عجیب حماقت حضرت انسان کی ہے ۔ کہ یہ اپنی فطرت اور ساخت کی بھی توہین کرتا ہے ۔ اور نہ صر یہ کہ اپنے ابنائے جنس کے آگے اظہار تذلل وعبودیت کرتا ہے ۔ بلکہ ان پتھروں کو بھی خدا سمجھتا ہے جن کو پاؤں تلے روندتا ہے ۔ اور اس مٹی کو بھی مقدس جانتا ہے جس کو پامال کرتا ہے ۔ حالانکہ چاہیے تھا کہ اگر اس کے پاس کوئی پیغام رشدوہدایت نہ ہوتا تب بھی یہ اپنی حالت پر غور کرتا ۔ اپنے خصائل کا احساس رکھتا ۔ اور خودداری سے دنیا میں بسر کرتا *۔