سورة البقرة - آیت 34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو ۔ (ف ١) تو سب نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے ، اس نے نہ مانا اور تکبر کیا ۔ اور وہ کافروں میں سے تھا ۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) مسجودانسان : پھر اس لئے کہ فرشتوں کو انسان کی حقیقی قدر ومنزلت کا علم ہو ‘ اللہ نے تمام کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا کہا ، سب کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکایا ، اسلامی فلسفہ تخلیق ہی یہی ہے کہ تمام کائنات انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ ﴿خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ ذرہ سے آفتاب تک اور زمین سے آسمان تک سب کچھ حضرت انسان کے لئے ، حتی کہ شمس و قمر بھی اسی کے خادم ہیں ۔﴿وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ﴾یوں سمجھ لیجئے کہ آدم قبلہ مقصود ہے ہر چیز کا ، ساری کائنات کا محور انسان ہے ، شیطان جو ایک مشخص برائی ہے ، اس حقیقت کو نہ سمجھا اور اکڑ بیٹھا ، قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا ۔ ﴿وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾اس لئے ضروری تھا کہ وہ انسانی شرف ومجد کا انکار کر دے ۔ حل لغات: سَجَدُوا، فعل ماضی مادہ سجدہ ، جھکنا ، اظہار تذلل کرنا ۔ إِبْلِيسَ ، شیطان کا نام ہے ، ابلاس کے معنی ناکامی کے ہوتے ہیں ابلیس چونکہ خائب وخاسر شخص کا نام ہے اس لئے ابلیس کہا جاتا ہے ۔