سورة غافر - آیت 5

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِهِمْ ۖ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان سے پہلے قوم نوح نے اور ان کے بعد اور گروہوں سے جھٹلایا اور ہر امت نے اپنے رسول کو پکڑنے کا ارادہ کیا اور باطل بات سے جھگڑتے رہے تاکہ اس سے حق (ف 1) بات کو ڈگادیں ۔ پھر میں نے انہیں پکڑا تو میرا عذاب کیسا تھا ؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: فرمایا ۔ کہ ان لوگوں کی تکذیب محض کفر وعناد پر مبنی ہے ۔ اور یہ اگر آسودگی اور آسائش سے شہروں اور ملکوں میں گھومتے پھرتے ہیں ۔ تو آپ یہ نہ سمجھ لیں ۔ کہ یہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ گئے ہیں ۔ ان سے پہلے بھی قوموں نے تکذیب کی ہے ۔ اور اپنے انبیاء کی مخالفت کی ہے ۔ اور ان کے خلاف سازشیں کی ہیں ۔ تاکہ حق کی آواز کو دبا لیں ۔ مگر ہمارے عذاب نے انہیں ہمیشہ اپنے ارادوں میں ناکام رکھا ۔ اسی طرح ان کے لئے بھی مقدر ہے ۔ کہ اللہ کے عذاب کو چکھیں ۔ اور جہنم میں اپنا ٹھکانا بتائیں ۔ عارضی طور پر ہم نے ان کو چلنے پھرنے کی مہلت دے رکھی ہے ۔ اس سے آپ اشتباہ میں نہ پڑیں ۔ آپ یقین رکھیں ۔ کہ ان لوگوں کو اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ اور اللہ کا دین پھیلے گا *۔ حل لغات :۔ تقلبھم ۔ چلنا پھرنا * وحمت ۔ بری نیت سے کیا * لیدحضوا ۔ دحض سے ہے جس کے معنی باطل کرنے اور ضائع کرنے کے ہیں جحلہ دا حصہ سے مراد وہ دلیل ہے ۔ جو مخالف کے زور استدلال کو توڑ دے *۔