إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اگر تم کو کچھ بھلائی پہنچے اس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور بچتے رہو تو ان کا فریب تمہارا کچھ ضرر نہ کرے گا جو کچھ وہ کرتے ہیں ، سب خدا کے بس میں ہے۔ (ف ١)
(ف1) قرآن حکیم علیم بذات الصدور خدا کی کتاب ہے ‘ اس لئے ضرور ہے کہ مخالفین کی ایک ایک نفسیت کو بیان کیا جائے اور بتایا جائے کہ مخالف مخالف ہے اور موافق موافق ، تاکہ مسلمان کسی دھوکے میں نہ رہیں ، ان کے نفاق کا علاج بھی بتا دیا فرمایا ﴿وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا﴾ یعنی اگر تم گھبرا نہ جاؤ اور پوری استقامت سے کام لو اور محتاط رہو تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ۔ مسلمان کو جس قدر تدبر ‘ استقلال اور احتیاط واعتدال کی تلقین کی گئی ہے ، وہ اسی قدر بےوقوف کاہل اور غیر معتدل ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں نے یہودیوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کیا ، انہوں نے دھوکا دیا ، منافقین کے ساتھ وفق ومسالمت سے کام لیا ، وہ مخالفین کے ساتھ مل گئے ، عیسائیوں کی تعریف کی ‘ وہ بگڑ گئے ، اس صورت میں ضروری تھا کہ ان سب سے ایک دم تعلقات منقطع کر لئے جائیں اور انہیں بتا دیا جائے کہ ہم تمہاری تمام منافقانہ چالوں سے واقف ہیں ۔ حل لغات : حَسَنَةٌ: نیکی ، یہاں مراد مسرت ہے ۔