فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ
پھر سب فرشتوں نے اکٹھے (ف 1) ہوکر اسے سجدہ کیا
اللہ کے نائب کا عہدہ ف 1: یہ اس وقت کی بات ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو وجود کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کو تھا ۔ جب یہ طے ہورہا تھا ۔ کہ اس ظلوم وجہول کے کندھے پر خلافت عظمی کا بار رکھا جائے ۔ جب ملاء اعلیٰ کے روحانی نعمتوں سے معمور تھا ۔ اور اخلاق اکبر کو یہ منظور تھا ۔ کہ زمین کو بشر کی ہنگامہ آرائیوں کا مرکز بنایا جائے ۔ اس وقت اس میں خودداری وعظمت کا جذبہ بیدار کرنے اور زمین میں بہترین غائب بنانے کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ۔ کہ طاء اعلیٰ کو اس کے سامنے جھکایا جائے اور اس کی بتلایا جائے ۔ کہ دنیا میں جانے کا مقصد تسخیر کائنات ہے ۔ تم اس لئے خلعت وجود سے نوازے جارہے ہو ۔ تاکہ قدرت کی بلند ترین اور پاکیزہ ترین قوتوں کو اپنے سامنے جھکاؤ۔ اور خود صرف اللہ کے سامنے جھکو *۔ یہ انداز بیان (اسی لئے) اختیار کیا گیا ہے ۔ کہ موجودہ انسان اپنی رفعتوں اور عظمتوں کا صحیح صحیح اندازہ کرسکے ۔ فرمایا کہ جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا ۔ کہ دیکھو میں مٹی سے ایک انسان بنانیوالا ہوں ۔ جب میں اس کو بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں ۔ تو تمہیں یہ زیبا ہے ۔ کہ اس کے احترام میں اس کے روبرو سجدہ میں گرپڑتا ۔ چنانچہ تمام قدسیاں حریم ، عزت وجلال نے آدم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ۔ اور نہایت عقیدت سے اس کے سامنے جھک گئے ۔ مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محرومی وشقاوت کو خرید لیا ۔ اس کے انکار سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ یہ حکم سے پہلے اس قابل ضرور تھا ۔ کہ فرشتوں کے ساتھ اسے بھی سجدہکا مکلف قرار دیاجائے ۔ اس کے بعد محض اپنی سرکشی سے وہ ابلیس بنا ہے ۔ اور کبر و غرور سے تتیطنت کی مسند پر بیٹھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے نیک ہی پیدا کیا تھا ۔ اور اس کے مناسب بھی یہی تھا ۔ کہ وہ فرشتوں کے ساتھ ساتھ خدا کی اطاعت کا ثبوت دے ۔ مگر اعجاب نفس کے مرض نے اسے ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا ۔ اور دائما غضب الٰہی کا اسے مورد ٹھہرایا *۔ حل لغات :۔ من روحی ۔ میری روح ۔ نسبت محض تشریف وتفضل کے لئے ہے * بیدی ۔ یعنی قدرت کاملہ سے *۔