ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
جہاں دیکھئے ان پر ذلت چھائی ہوئی ہے (ف ١) ، مگر اللہ کی رسی اور آدمیوں کی رسی کے ساتھ (امن پاتے ہیں اور انہوں نے خدا کا غضب کمایا اور ان پر محتاجی ڈالی گئی ہے ، یہ اس لئے کہ وہ خدا کی آیتوں کا انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کیا کرتے تھے ، یہ اس لئے کہ وہ نافرمان اور حد سے گزرنے والے تھے ۔
کفر کی شکت : ان آیات میں بتایا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو کوئی مادی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ، جب مسلمانوں کے مقابلہ میں آئیں گے تو خائب وخاسر ہی لوٹیں گے ، ان کے کفر والحاد کی وجہ سے کہ انہوں وحدت حق کو ٹھکرایا ہے اور انبیاء کی مخالفت کی ہے ، انہیں ذلت ومسکنت سے دو چار ہونا پڑے گا ، الا یہ کہ خدا کے جبل متین کو مضبوطی سے پکڑ لیں ، دیکھو ! قرآن حکیم کی یہ پیشگوئی کس قدر واضح طور پر ثابت ہوئی ، اہل کتاب باوجود کثرت کے شکست کھا گئے ان کے علم رفیع کے سامنے سرنگوں ہوگئے ، قرآن حکیم علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ کفر ہمیشہ مغلوب رہے گا ان کی ہمیشہ فتح ہوگی ، اس لئے کہ حق وباطل کی آویزش میں حق کا پلہ بھاری رہتا ہے ۔ اور باطل کے پاؤں نہیں ہوتے ۔ یہ وقت ہے جب مقابلہ صحیح مومن اور کافر کے درمیان ہو ۔ مسلمان برائے نام ہو اور کافر تمام اچھی صفات صفات سے متصف ہونا وقت ضروری نہیں کہ خدا کی رحمتیں ایسے مسلمانوں کے شامل رہیں ۔ آج کل بالکل یہی کیفیت ہے ، وہ جو غیر مسلم ہیں ‘ ان میں اکثر اسلامی خوبیاں موجود ہیں ، وہ آپس میں اتفاق رکھتے ہیں ، ان میں تعاون وہمدردی کا مادہ موجود ہے ، وہ تعلیم وحرفت میں ‘ دولت وسرمایہ میں مسلمان سے کہیں آگے ہیں ، اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہے ، مفلس ہے اور جاہل ، بتائیے ان حالات میں کیونکر وہ خدا کی نعمتوں کا مستحق ٹھہر سکتا ہے کیا اس لئے کہ اس کا نام عبداللہ یا عبدالرحمان ہے یا اس لئے کہ وہ موروثی طور پر مسلمان ہے ۔