قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
(ف 1) داؤد (علیہ السلام) نے کہا ۔ اس نے تجھ پر ظلم کیا کہ اپنی دنبیوں میں ملانے کے لئے تیری دنبی مانگی اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے وہ ایسا نہیں کرتے اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں اور داؤد کے خیال میں آیا کہ ہم نے اسے آزمایا ۔ پھر اس نے اپنے رب سے مغفرت مانگی اور جھک کر گرا اور توبہ کی۔
(ف 1) حضرت داؤد نے نہایت فصاحت وبلاغت سے اور حسن خطاب کے انداز سے فیصلہ سنایا جس میں معمولی واقعہ کو ایمان وعمل کی دعوت کا زبردست ذریعہ بنالیا ۔ اور بتایا کہ عام طور پر جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اعمال صالحہ کی قدروقیمت کو صحیح معنوں میں نہیں جانتے ۔ ان سے اس نوع کی زیادتیاں ضرور صادر ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے اصل چیز یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ تاکہ ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے کا ان کو موقع ملےاور آئندہ حق وانصاف کو اپنا مذہبی شعار بنائیں ۔ یہ نہیں کہ اس واقعہ کو صرف سطحی نظروں سے دیکھیں اور اس کے حقیقی اسباب پر غور نہ کریں ۔ اس کے بعد حضرت داؤد کو محسوس ہوا کہ دیواریں پھاند کر محل میں آجانے سے جو سوء ظن ان کے دل میں پیدا ہوا تھا وہ غلط تھا ۔ اور اس لحاظ سے قابل معافی تھا کہ ناکردہ گناہ انسان کے متعلق اس طرح کی رائے ۔ اس کو بہت سی مشکلات میں پھنسا دینے کی موجب ہوسکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنی اس غلط فہمی کی اللہ سے معافی چاہی ۔ اور اللہ نے ان کو معاف کردیا ۔ اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا ۔