فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
پھر جب وہ اس عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ دوڑنے لگا تو وہ بولا کہ بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح (ف 1) کررہا ہوں پس غور کر تیری کیا رائے ہے ؟ کہا اے باپ جو تجھے حکم ہوتا ہے ۔ تو اسے کر گزر ان شاء اللہ تو مجھے صابروں میں پائے گا۔
ذبیح کون تھا ؟ (ف 1) ان آیات میں دین کے لئے اور خدا کی اطاعت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عدیم النظر قربانی کا ذکر ہے کہ کیوں کر انہوں نے باوجود باپ ہونے کے اپنے بیٹے کی گردن پر اپنے ہاتھ سے چھری رکھ دی ۔ اور کس سعادت مندی سے ان کے بیٹے نے اپنے کو اس ایثار عظیم کے لئے پیش کیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہب کی تاریخ میں اس واقعہ کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے کہ اللہ کے ایک اشارہ پراپنے لخت جگر کو ذبح کردینے کا باپ تہیہ کرلے ۔ اور باپ کی فرمانبرداری میں بیٹا جانِ عزیز تک کی پرواہ نہ کرے ۔