سورة آل عمران - آیت 97

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اس میں کھلے نشان ہیں (یعنی) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ، اور جو اس میں داخل ہوتا ہے امن پاتا ہے اور اللہ کے لئے اس گھر کا حج اس شخص پر لازم ہے جو اس تک آسانی سے راہ پاوے اور جس نے نہ مانا تو خدا جہان کے لوگوں سے بےپرواہ ہے ۔ (ف ٢)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حج بیت اللہ : (ف ٢) اسلام کے ارکان خمسہ میں سے حج ایک بہت اہم رکن ہے ، اس آیت میں اس کی فرضیت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ہر شخص جو استطاعت رکھتا ہو ، مکلف ہے کہ بیت اللہ پہنچے اور مناسک حج ادا کرے مگر استطاعت کیا ہے ؟ اس کے مفہوم میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک صرف زاد راہ اور راحلہ کافی ہے ، اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نددیک نفس قوت کفایت کرتی ہے ، اگرچہ زاد راہ نہ ہو ، ابن زبیر شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ اسی طرف گئے ہیں ، ضحاک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص مضبوط اور تندرست ہو تو حج کے لئے چاکری یا ملازمت اختیار کرے ، جب ازاد راہ کا سامان ہوجائے تو حج کو چلا جائے ، گویا ان کے نزدیک بھی صرف جسمانی قوت واستعداد ہی استطاعت کے مفہوم میں داخل ہے ۔ اصل چیز یہ ہے کہ استطاعت سبیل کا لفظ عام ہے ، جس میں جسمانی قوت واستعداد سے لے کر زاد راہ ‘ راحلہ اور دیگر سفر تک سب چیزیں شامل ہیں ۔ یعنی ہر وہ چیز جس کا حصول سفر کے امکانات میں سہولت پیدا کردے ‘ وہ استطاعت کے دائرے میں موجود ہے اور احادیث میں جو زاد وراحلہ کو استطاعت سے تعبیر کیا ہے تو وہ بطور تفسیر کے ہے ‘ تحدید کے نہیں یعنی عام طور پر چونکہ یہی وہ چیزیں اولا خیال کی جاتی ہیں ‘ اس لئے ان موجود ہونا ضروری ہے ۔ (آیت) ” ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “۔ کا مطلب یہ ہے کہ حج مبرور سے جس کا صلہ حیات ونعیم کی لازوال نعمتیں ہیں ، محرومی کفر ہے یعنی اگر کوئی شخص باوجود استطاعت کے فریضہ حج ادا نہیں کرتا تو پھر اسے اپنے اسلام کا جائز لینا چاہئے ، قرآن حکیم اس کے لئے کفر کا خوفناک لفظ تجویز کرتا ہے اس سے اس کی اہمیت واضح ہے اور یہ اس لئے ہے کہ حج میں صرف عبادت وزہد کا سامان فراواں ہی موجود نہیں ‘ بلکہ ایمان وعقیدت کے لئے مکہ کا ذرہ ذرہ وادی ویمن ہے اور پھر وہ اجتماع عظیم ہوتا ہے جس میں ملک ووطن کی تمام تفریقیں اٹھ جاتی ہیں اور سارے انسان ایک خاص لباس میں رب اکبر کے سامنے جھک جاتے ہیں ، اور وحدت ویکسانی کا ایک متلاطم سمندر ہوتا ہے ، بادشاہ سے لے کر فقیر تک ہیں کہ ایک ساتھ مناسک حج ادا کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اجتماع ابراہیمی کا سب سے بڑا اجتماع ہے اس لئے حج کا مسئلہ صرف عبادت وزہد کا مسئلہ نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اجتماعات سے بھی ہے ، اس لئے اس کا انکار چاہے وہ حکم سے ہو اور چاہے قول سے ‘ ایک بہت بڑا گناہ ہے ،