دُحُورًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ
بہکانے کو اور ان کے لئے ہمیشہ (ف 1) کا عذاب ہے۔
سورہ صافات (ف 1) اس سے قبل بتایا جاچکا ہے کہ قرآن میں قسم سے غرض استشہاد ہے ۔ مقسم بہ کی جلالت قدر یا عظمت کا اظہار نہیں ہے ۔ چنانچہ سورۃ صافات کی تشریح اس نظریہ کے مطابق یوں ہوگی کہ اصل دعویٰ جو قابل اثبات ہے ۔ وہ توحید ہے ۔ جیسے کہ ارشاد ہے ﴿إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ﴾ اور دلیل میں ان حقائق کو پیش فرمایا ہے کہ اس تعلیم کو لانے والے اطاعت شعار فرشتے ہیں جو عتبہ جلال خداوندی کے سامنے حکم کے منتظر صف باندھے کھڑے رہتے ہیں ۔ وہ اپنے مواعظ وانوار سے نفوس قدسیہ کو مجلی کرتے رہتے ہیں ۔ اور ان کو معاصی سے روکتے ہیں جو ذکرو فکر کے صحائف کو پڑھتے ہیں ۔ اور القاء والہام کی خدمات سرانجام دیتے ہیں ۔ یعنی جہاں تک اس تعلیم کا تعلق ہے جو الہامی ہے جس کو لانے والے فرشتے ہیں جو دماغوں کی کاوش فکر کے مرہون منت نہیں بلکہ نتیجہ ہے رب السموت کی بخششوں کا اس میں یکسر توحیداور تجرید کا ذکر ہے ، تمام صحف انبیاء میں یہی مسلک پیش کیا گیا ہے ۔ اور یہی وہ سرمدی اور ازل حسیت ہے ۔ جس کے اظہار کے لئے جناب باری نے بعثت اور رسالت کے شرف سے انسان کو نوازا ۔ خدا ایک ہے جو بلندیوں اور پستیوں کا رب ہے اور آفتاب کے طلوع اور غروب کے مختلف مقامات کی پوری نگرانی کرنے والا ہے ۔ حل لغات : دُحُورًا ۔ ہانکنا ۔ چلانا ۔ باز رکھنا ۔ وَاصِبٌ ۔ ہمیشہ ودائم و شدید ۔