سورة يس - آیت 40

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نہ سورج سے ہوسکتا ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن کے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب ایک ایک گھیرے میں تیرتے پھرتے ہیں (ف 2)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

قرآن اور نظریات جدیدہ ف 2: یہ مسئلہ کہ آفتاب گھومتا ہے یا زمین اور چاند کی گردش کس نوع کی ہے ؟ اس کا تعلق مذہب کے ساتھ بالکل نہیں ہے ۔ یہ فلکیات کی بحث میں ہے اور مذہب کا موضوع بحث یہ ہے ۔ کہ کس طرح دلوں کو شرک کی آلودگیوں سے پاک کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیونکر انسانوں کو فلاح وبہبود کا درس دیاجاسکتا ہے ۔ مذہب ان مسائل سے تعرض کرتا ہے ۔ کہ وہ کون تعلیمات ہیں ۔ جو لحمہ انسانی کے لئے باعث برکت وسعادت قرار پاسکتی ہیں ۔ اور وہ کون پیغام ہے جس کو اللہ کا پیغام کہا جاسکتا ہے ۔ یہ سائل کہ زمین پپٹی ہے گول ۔ ستاروں کی حرکت مداری ہے یا محوری آفتاب کی روشنی کس نوع کی ہے ۔ کسوف وخسوف کے واقعات کیوں ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ یہ سب مذہب کی حدود سے باہر ہیں ۔ اس لئے بالطیع ان مسائل کو قرآن ، بائبل ، اور دیگر مذہبی کتابوں میں تلاش کرنا چاہیے ۔ ان مذہبی کتابوں میں اگر اس نوع کے اشارات آتے ہیں ۔ تو وہ اس نہج سے نہیں ۔ کہ یہ مذہبی کتابیں کسی خالص زاویہ نگاہ کی موید ہوتی ہیں ۔ بلکہ محض برسبیل استطراء ان سے مقصود کسی دوسری حقیقت کو بیان کرنا ہوتا ہے ۔ جو اپنی جگہ پر بالکل صحیح اور اٹل ہوتی ہے ۔ مثلا جب یہ فرمایا ہے کہ آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہنا ہے ۔ تو اس سے یہ غرض نہیں ہے کہ آفتاب حرکت کرتا رہتا ہے ۔ بلکہ یہ مراد ہے ۔ کہ آفتاب کا طلوع و غروب ایک مقرر انداز کے مطابق ہے ۔ جس کی تفسیر عاانک تقدیر العزیز العلیم کہہ کر خود فرمادی جس کے خلاف نہیں ہوتا ۔ اسی طرح چاند کی منازل بیان کرنے میں اس کی مختلف حالتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ کا نظام کس درجہ حیرت اور عبرت پیدا کرنیوالا ہے ۔ اور کل فی خطک یسبحون بھی ہی قبیل سے ہے ۔ یعنی ایک اس حقیقت کو بیان کیا ہے جس کو ہم مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اس کی تحقیق سے بحث نہیں بہر آئینہ قرآن میں جہاں اس نوع کے وواقعات آئے ہیں ۔ ان سے مراد اللہ کی قدرتوں پر استیہاء ہوتا ہے کسی طبعی حقیقت کا اظہار نہیں ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے ۔ کہ طبعیات اور فلکیات کے نظرئیے ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ ضروری نہیں ۔ کہ ہم ان کی قسمت کے متعلق یقین رکھیں ۔ اور جب یہ دیکھیں کہ قرآن کے پیش کردہ نظریہ میں اور اس میں تصادم ہے تو قرآن میں تاویل کرنے لگیں ۔ کیونکہ قرآن میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ قطعی دھیمی ہے گو اس کی حقیقت ہمیں نہ معلوم ہو ۔ اور نظریات ہر آن معرض بحث میں ہیں ۔ آج کچھ میں اور کل کچھ چنانچہ زمین کی گردش ہی کے متعلق دیکھ لیجئے ! اب پھر ایک گروہ پیدا ہوگیا ہے ۔ جو اس کا انکار کررہا ہے ۔ اور ہی پرانا نظریہ ان کے نزدیک صحیح ہے ان حالات میں قرآن کو نظریات کا موافق بنانے کی کوشش کرنا محض بےشود ہے ۔ حل لغات :۔ لمستقر ۔ ٹھکانا * یسجون ۔ پتے ہیں ۔ تیررہے ہیں ۔ یہ عرف معنوی ہے اظہار حقیقت نہیں ۔ ائمشحون ۔ مملو * صریخ ۔ فریاد رس ۔ صراح سے ہے ۔ جس کے معنے مدد کے لئے چیخ وپکار کرنا ہے ۔