سورة آل عمران - آیت 79

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ اس کو خدا کتاب اور حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میرے بندے ہوجاؤ بلکہ (یوں کہے کہ) تم خدا والے ہوجاؤ جیسے کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو ، اور جیسے کہ تم پڑھتے ہو ۔ (ف ٢)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

تحریف وبدیانتی کی روشن ممثال : (ف2) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ کوئی نبی جسے کتاب وحکمت کی پر از معارف نعمت سے نوازا گیا ہے ‘ ناممکن ہے کہ اپنی پوجا کرائے اور غیر اللہ کی پرستش کا حکم دے ، اس لئے جو لوگ انبیاء کی طرف اس نوع کی تعلیمات کو منسوب کرتے ہیں ‘ وہ راہ راست پر نہیں اور انہوں نے اپنی تعلیمات کو بدل لیا ہے ، انبیاء علیہم السلام تو اس لئے تشریف لاتے ہیں کہ بھٹکے ہوئے اور روٹھے ہوئے لوگوں کو پھر سے خدا کے حضور میں لا کھڑا کریں اور ان کے دلوں میں خدا کی محبت و عقیدت کے بےپناہ جذبات پیدا کردیں ، وہ دنیا میں خدا پرستی کی تعلیم دینے کے لئے آتے ہیں ، بالذات ان کا کوئی اپنا مقصد نہیں ہوتا ، وہ محض وسائل وذرائع سے اللہ تک پہنچتے ہیں ، وہ کبھی حدود بشریت سے تجاوز نہیں کرتے ، اس لئے کہ نبوت معراج انسانیت ہے ، اور علم کی آخری حد یہ ہے کہ خدا کی لامحدود قدرتوں کا بزور اعتراف کیا جائے اور اپنی بےچارگی اور عجز کو زیادہ سے زیادہ محسوس کیا جائے ، انبیاء علیہم السلام ” عبودیت “ کے اس بلند مفہوم کو سمجھتے ہیں اس لئے وہ کبھی اس قسم کی غلطی میں نہیں مبتلا ہوتے کہ لوگوں سے اپنی پرستش کرائیں ۔ پس وہ کتابیں جن میں کسی نبی کو خدا کو درجہ دیا گیا ہے ظاہر ہے محرف تھیں اور خدائے ذوالجلال کی طرف سے نہیں تھیں ، اس طریق سے قرآن حکیم نے ثابت کردیا کہ جب تک تثلیث کا عقیدہ بقول عیسائیوں کے موجودہ اناجیل میں موجود ہے ‘ اس وقت تک اسے تحریف سے مبرأ خیال نہیں کیا جاسکتا ۔ حل لغات : الْحِكْمَةَ: حکمت ۔ دانائی ۔ رَبَّانِيّونَ: جمع ربانی ، خدا پرست ۔ اللہ والا ۔ تَدْرُسُونَ: مضارع ، مصدر درس پڑھا ۔