سورة فاطر - آیت 18

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور کوئی اٹھانے والا بوجھ نہ اٹھائے گا ۔ اور اگر کوئی بھاری بوجھ والا کسی کو اپنے بوجھ کی طرف بلائے بھی تو اس کی طرف سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا ۔ اگرچہ (ف 3) قرابتی کیوں نہ ہو تو صرف انہیں کو ڈراتا ہے جو بغیر دیکھے اپنے رب سے ڈرتے اور نماز پڑھتے ہیں ۔ اور جو کوئی پاک ہوتا ہے اور اپنے ہی بھلے کے لئے پاک ہوتا ہے اور اللہ کی طرف پھر جاتا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 3) یعنی ہر شخص اپے اعمال کا ذمہ دار ہے ۔ یہ نہیں ہوسکے گا کہ گناہ تو ہم کریں اور سزا میں کسی دوسرے شخص کو گرفتار کیا جائے ۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں ہے کہ زید گناہ کرے اور دوسرے قالب میں بکر پکڑا جائے ۔ سزا اور اجر کا وہ ” انا “ مستحق ہے ۔ جس کا براہ راست اعمال سے تعلق ہے ۔ اس ” انا “ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ کفارہ اور تناسخ عقیدہ اس لئے غلط ہے کہ ان دونوں صورتوں میں سزا اور جزاکا تعلق اس ” انا “ سے باقی نہیں رہتا ۔ اور مکافات عمل کے اصول پر منطقی طور پر اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔ جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ حل لغات : وِزْرَ۔ بوجھ ۔