سورة سبأ - آیت 37

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تمہارے مال (ف 1) اور تمہاری اولاد وہ نہیں کہ ہمارے پاس تمہارا درجہ قریب کردیں مگر وہی جو ایمان لایا اور اس نے نیک کام کئے تو ایسے ہی لوگوں کو ان کے اعمال کا دوچند بدلا ملے گا ۔ اور وہ بالاخانوں میں نڈر بیٹھے ہوں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

روحانی تقاضے ف 1: مکے والوں کو مال ودولت اور اپنی اولاد پر بڑا غرور تھا وہ سمجھتے تھے کہ اس سے زیادہ سعادت اور خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ کہ ایک شخص دولت سے بہرہ ور ہو ۔ اور اس کے اولاد بھی ہو ۔ ان دوچیزوں کی موجودگی میں روحانیت بےمعنی شے ہے ۔ اور مذہب کی ضرورت نہیں ۔ آج بھی مادہ پرست دنیا یہی سمجھتی ہے ۔ کہ جہاں تک حظوظ دنیا کا تعلق ہے اس سے استفادہ کرنا تو ضروری ہے ۔ اور ان کو پاکر پھر ما بعد الطبعی مسرتوں کے پیچھے دوڑنا حماقت ہے چودہ سو سال کی مادیت میں کوئی فرق نیں ۔ آج بھی وہی خیالات ہیں جو آج سے پہلے مکے کے جاہلوں میں رائج تھے ۔ اضافہ صرف یہ ہوا ہے ۔ کہ ان لوگوں کی خواہشات محدود تھیں ۔ آج ان خواہشات میں تو سیع او تنوع پیدا ہوگیا ہے ۔ اور بس ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ یہ بات جب درست ہوتی جب تم صرف جسم ہوتے اور تم میں روح نہ ہوتی ۔ اور روحانی تقاضے نہ ہتے جب تمہارے جس کے ساتھ تمہاری روح بھی ہے اور وہ روح اس روح اکبر سے جماملنا چاہتی ہے ۔ اس کے تقرب کے لئے بےقرار ہے ۔ اور اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں ۔ تو پھر بتاؤ کہ تم مال ودولت کے انباروں کے ساتھ کیونکر ان لطیف تقاضوں کو پورا کرسکتے ہو ۔ اور کیونکر اللہ تک رسائی حاصل کرسکتے ہو ۔ یاد رکھو وہاں تک پہنچنے کے لئے جن کیفیات کی ضرورت ہے ۔ وہ سیم وزر سے دل میں پیدا نہیں ہوتیں ۔ اور نہ اولاد واعوان سے ان کے حصول میں کچھ مدد مل سکتی ہے ۔ وہ کیفیتیں تو ایمان سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اور اعمال صالحہ کی آبیاری سے بڑھتی اور تازگی حاصل کرتی ہیں *۔ حل لغات :۔ زلفی ۔ تقرب ۔ حضور * الغرفات ۔ غرفہ کی جمع ہے ۔ بمعنی بالا خانے * ویقدر ۔ تنگی سے دیتا ہے *۔