يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری وہ عورتیں حلال کردی ہیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اور وہ (لونڈیاں بھی) جو تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدائے تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدا نے تیرے ہاتھ لگوا دیا ہے ۔ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور مومن عورت (بھی حلال ہے) اگر اپنی جان نبی کو بخش دے (ف 2) (یعنی بن مہر نکاح میں آنا چاہے) اگر نبی بھی اس کو نکاح میں لینا چاہے (توجائز ہے) یہ خاص تیرے ہی لئے ہے سوا اور ایمانداروں کے ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان پران کی بیویوں اور ان کے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے حق میں فرض کیا ہے تاکہ تیرے اوپر تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعددازدواج کا فلسفہ ف 2: مخالفین نے تعدد ازدواج پر بہت سے اعتراض کئے ہیں اور کہا ہے کہ جس شخص کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں ہوں ۔ وہ کیونکر روحانیت کا پیکر ہوسکتا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک روحانیت کے معنے مجرد اور ہبانیت کے ہیں ۔ اور خدارسیدہ شخص ان کے نظریہ کے مطابق وہ ہے جو دنیوی برکات سے یک قلم محروم ہو ۔ قطع نظر اس اصول کے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی کے محرکات میں جنس جذبات نہ تھے ۔ بلکہ تبلیغی حاجات کا تقاضا یہ تھا ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبائل عرب میں اشاعت دین کی خاطر یہ رستہ استوار کریں ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حقائق پر غور فرمائیے :۔ (1) پچیس سال کی عمر تک آپ نے کامل تجرد کی زندگی بسر کی ہے *(2) گرم ممالک میں اس سے بہت عرصہ پہلے آدمی شادی کے قابل ہوجاتا ہے *(3) پہلی شادی ایک رانڈ عورت سے کی ہے ۔ جو آپ سے پندرہ برس عمر میں بڑھی تھیں ۔ یعنی حضرت خدیجہ (رض) سے *(4) 50 برس کی عمر تک آپ نے تنہا حضرت خدیجہ (رض) کے ساتھ بسر کی *(5) مدینہ میں جا کر کہیں 53 برس کے بعد مختلف قبائل میں شادی کی طرح ڈالی ہے * کیا ان واقعات کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تسکین جنسی کے لئے اس قدر متعدد بیویاں اپنے حرم میں ڈال رکھی تھیں ۔ بات یہ تھی کہ اس طرح متعدد شادیوں سے آپ مختلف قبائل کے داماد ہوگئے تھے ۔ اور وہ ان تعلقات مصابرت کی بنا پر مجبور تھے ۔ کہ آپ کی عزت کریں اور ٹھنڈے دل سے اسلام کے متعلق غور کریں *۔ ان آیات میں یہ بتایا ہے ۔ کہ کون کون رشتے اس قابل ہیں ۔ کہ ان سے ازدواجی تعلقات کو قائم کیا جائے ۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے ان رشتوں کو زنا شوئی کے لئے جائز رکھا ہے ۔ جن سے فطرتاً انسان معاشقہ کرسکتا ہے ۔ جیسے چچا کی بیٹی ۔ خالہ کی بیٹی ، ماموں کی بیٹی وغیرہا ۔ جو لوگ ان رستوں کو ازدواج کے لئے ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نے انسانی فطرت کا اور انسانی تاریخ کا مطالعہ گہرائی سے نہیں کیا ہے وہ نہیں جانتے کہ انسان بالطیع سب سے پہلے انہیں رشتوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور جھکتا ہے ۔ اور تو وہ رسم ورواج کی پابندی کی وجہ سے شادی نہ کرسکے ۔ مگر اپنے دل میں ان کے متعلق جذبات محبت ضرور پاتا ہے *۔ ملک یمین بھی ایک نوع کا عقد ہوتا ہے ۔ اس لئے مملوکہ عورتوں سے بھی وہ تعلقات ہوسکتے ہیں ۔ جو شادی شدہ عورتوں سے ہوتے ہیں ۔ چونکہ آج ہم غلام ہیں اور برسوں سے عسکری ضرورتوں اور مجبوریوں سے ناآشنا ہیں ۔ اس لئے یہ بات کچھ قابل اعتراض معلوم ہوتی ہے حالانکہ اس میں بہت سی مصلحتیں ہیں ۔ جن کے اظہار کا یہ موقع نہیں *۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے یہ مخصوص رخصت سے کہ اگر کوئی عورت آپ اپنے کو خدمات ازدواج کے لئے پیش کریے ۔ تو بلامعاوضہ یعنی بغیر مہر اس کو قبول فرمالیں ۔ اور یہ کہ جس عورت کو جب تک چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جس کو جس وقت تک چاہیں شرف صحبت سے دور رکھیں ۔ گو کہ آپ نے اس رخصت سے عملاً کبھی استفادہ نہیں کیا ۔ آپ نے اپنے اوقات کو تقسیم کررکھا تھا ۔ اور تمام ازدواج مطہرات برابر آپ سے استفادہ کرتی تھیں ۔ جہاں آپ کے لئے پابندی بھی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ آپ اب ان موجودہ بیویوں کو چھوڑ کر ان کی جگہ دوسری بیبیوں کو اپنے گھر میں نہیں لاسکتے ۔ کیونکہ وہ بہرحال آپ سے خوش ہیں ۔ اور اسلام کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں *۔