مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
جو بات اللہ نے نبی (ﷺ) کے لئے ٹھہرادی اس میں نبی پر کچھ تنگی نہیں (اسی طرح) اللہ کا دستور (ف 2) رہا ہے ان لوگوں میں جو پہلے ہوگزرے ہیں اور اللہ کا کام اندازہ پر مقرر کیا ہوا ہے۔
(ف 2)حضرت زینب سے نکاح کرکے حضور (ﷺ) نے ایک پرانی رسم کو توڑدیا مگر دل منقبض تھا ۔ اس لئے آپ نہیں چاہتے تھے کہ اس طریق سے لوگوں کو نفس اسلام کے متعلق کچھ کہنے اور سننے کا موقع ملے ۔ اس آیت میں آپ کی مزید طمانیت قلب کے لئے فرمایا کہ اس قسم کے معاملات میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ پیغمبر ہمیشہ عوام الناس کی خواہشات کے خلاف اقدام کرکے خود ملامتوں اور طعنوں کا نشانہ بن جایا کرتا ہے ۔ وہ تو مبعوث ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ سوسائٹی اور سماج کے غلط مقام کو درہم برہم کردیں ۔ ان کے آنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے عمل سے اپنے لئے ایک بالکل اچھوتے اور جداگانہ طریق زندگی کی طرح ڈالیں اس لئے وہ بالطبع صرف خدا سے ڈرتے ہیں اور لوگوں کے خیالات اور جذبات سے بالکل بےنیاز ہوجاتے ہیں ۔ وہ صرف خدا سے مدد چاہتے ہیں ۔ اس لئے آپ منقبض نہ ہوں اور یقین رکھیں کہ ایک طے شدہ حکمت کے ماتحت کیا گیا ہے جس کی مصلحتیں آئندہ نسلوں کو محسوس ہوں گی ۔ حل لغات: قَدَرًا مَقْدُورًا ۔ طے شدہ بات ۔