سورة الأحزاب - آیت 37

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور جب تو اس سے جس پر خدانے اور تونے انعام کیا کہتا تھا کہ اپنی عورت کو اپنے پاس رہنے دے اور خدا سے ڈر اور (تو یہ بھی اسے کہتا تھا) اپنے دل میں اس بات کو چھپانا تھا ۔ جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے ۔ اور تو آدمیوں سے ڈرتا تھا ۔ حالانکہ تجھے اللہ سے زیادہ ڈرنا چاہیے ۔ پھر جب زید اس عورت سے اپنی غرض پوری کرچکا تو ہم نے تیرا نکاح (ف 1) اسی عورت سے کردیا کہ ایمانداروں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی عورتوں پر تنگی نہ رہے ۔ جب وہ ان سے اپنی غرض پوری کرچکیں اور اللہ کا کام تو ہوکر ہی رہنا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت زینب کا قصہ (ف 1)حضرت زید غلام تھے ۔ حضور نے انہیں آزادی کی نعمت بخشی ۔ اور پھر اپنی آغوش تربیت میں لے لیا یہ بڑھے اور پروان چڑھے ۔ حضور (ﷺ) نے اپنی پھوپھی زاد بہن ان کے نکاح میں دیدی تاکہ غلام کے رتبہ کو دنیا میں بلند کیا جائے ۔ اور یہ بتایا جائے کہ اسلام میں آقا وغلام کی کوئی تمیز نہیں ۔ جب کوئی شخص مسلمان ہوجاتا ہے اور آزادی کی نعمت کو بھی پالیتا ہے تو سابقہ غلامی کا داغ اس کے دامن پر نہیں رہتا ۔ بلکہ وہ اسلام کی روشنی سے چمک اٹھتا ہے ۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت زید کی وجہ سے سماج کی ایک اور رسم کو توڑنا اللہ کو منظور ہوا ۔ اس لئے میاں بیوی میں نبھاؤ نہ ہوسکا ۔ حضور (ﷺ) کی خواہش تو یہی تھی کہ ان دونوں میں بنی رہے ۔ اور حتی الامکان تعلقات قائم رہیں ۔ مگر اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان دونوں میں جب جدائی واقع ہوجائے ۔ تو آپ اس رسم کو توڑیں کہ متبنیٰ کو وہی حیثیت حاصل ہے جو بیٹے کو حاصل ہے ۔ اور حضرت زینب سے نکاح کرلیں ۔ حضور (ﷺ) اس وجہ سے کہ لوگ خواہ مخواہ اس پر معترض ہونگے چاہتے تھے کہ زید کے تعلقات نہ بگڑیں۔ اور وہ آخر تک اس رشتہ کو نبھائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ خلوص کے ساتھ زید کو تقویٰ کی تلقین کرتے اور کہتے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو اور اسے نہ چھوڑو ۔ مگر فیصلہ خداوندی ہوچکا تھا کہ حضر زینب کو ام المومنین کے شرف سے نواز جائے ۔ اور ان کی دلجوئی کی جائے اس لئے باوجود نہ چاہنے کے اور اس اشارہ خداوندی کو دل میں پنہاں رکھنے کے آپ بالآخر مجبور ہوگئے کہ حضرت زینب سے نکاح کرلیں ۔ اتنی سی بات تھی جسے دشمنوں نے افسانہ کردیا ۔ اور یہ کہنا شروع کردیا کہ محمد (ﷺ) نے بہو سے شادی کرلی ہے ۔ بڑا شور اور غوغا ہوا ۔ اللہ تعالیٰ یہ جانتے تھے کہ یہ سب کچھ ہوگا ۔ مگر چونکہ مقصدیہ تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ مسلمانوں کو یہ دقت پیش نہ آئے کہ وہ اپنے منہ بولے بیٹوں کے ساتھ کس نوع کے تعلقات رکھیں ۔ اس لئے ضروری تھا کہ حضور (ﷺ) خود بڑھ کر ایک دلیرانہ اسوہ قائم کریں ۔ اور مسلمانوں کے لئے صحیح راہ ہدایت متعین کردیں ۔ یہ بات عزیمیت کی تھی اور پیغمبرانہ جرات وجسارت کی تھی کہ کیونکر آپ نے سماج کے ایسے قانون کو اپنے عمل سے توڑا جس سے آپ پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگی ۔ دشمنوں کے لئے تو یہ بات قابل گرفت تھی ہی کہ بعض سادہ دل مفسرین نے بھی اس کو نہایت ذلیل انداز میں بیان کیا ہے اور تسلیم کرلیا ہے کہ معاذ اللہ حضور (ﷺ) حضرت زینب کو اچانک دیکھ کر عاشق ہوگئے تھے اس لئے دل میں اس خواہش کو چھپائے تھے ۔ اور لوگوں پر ظاہر نہ ہونے دیتے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح زینب کو اپنے لئے حاصل کرلیں ۔ قطع نظر اس کے یہ افسانہ کسی درجہ منصب نبوت کی توہین کا باعث ہے ۔ آپ یہ غور فرمائیے کہ عقلاً یہ کیونکر درست ہوسکتا ہے ۔ جبکہ حضرت زینب آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ۔ آپ نے بار بار ان کو دیکھا تھا ۔ عمداً ان کی خواہش کے خلاف ان کو زید کے حوالے کیا تھا اور جب آپ نے سنا کہ ان میں باہم ناچاقی ہے تو دلسوزی سے ان کو ایسے اقدامات سے روکا تھا جو طلاق پر منتج ہوں ۔ اگر آپ چاہتے تو ابتداء ہی میں حضرت زینب کے لئے رشتہ فخر ومباہات کا باعث ہوتا اور وہ اس کو ضرور منظور کرلیتیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ قصہ محض لغو ہے ۔ ہمارے بعض مفسرین نے سادگی سے ایسی روایات کو جمع کردیا ہے ۔ جو دراصل مخالفین نے آپ کو بدنام کرنے کی خاطر جمع کی تھیں ۔ حل لغات : وَطَرًا ۔ حاجت ۔ ضرورت ۔