وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا
اور اگر وہ (کفار) شہر میں اس کے اطراف سے ان پر گھس آتے پھر ان سے فتنہ برپا کرنے کو کہا جاتا ۔ تو وہ ضرور فتنہ پربا کرتے اور اپنے گھروں میں تھوڑی دیر ٹھہرتے۔
دنیوی زندگی عارضی ہے (ف 2)فرمایا ہے کہ اگر تم ازراہ بزدلی بھاگ جاؤ گے ۔ تو پھر کیا ہوگا کیا ہمیشہ ہمیشہ تم زندہ رہو گے ۔ کیا پھر کبھی نہیں مرو گے ۔ کیا تم یہ سوچتے ہو کہ یہ زندگی بظاہر طویل نظر آنے کے بہت کوتاہ اور قصیر ہے ۔ موت کا ایک دن مقدر اور معین ہے پھر جب ہر صورت میں مرنا ہے تو ان چند دنوں کی عارضی زندگی کو کیوں ٹھکراتے ہو ۔ عاجل کا نفع تمہارے سامنے ہے ۔ اور آجل کی بہرہ اندوزی سے محروم ہو ۔ یہ کہاں کی عقل مندی اور دانائی ہے کہ حیات چند روزہ کے غرض ابدی زندگی کو بیج ڈالا جائے ۔