سورة السجدة - آیت 4

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ (ف 2) دن میں پیدا کیا ۔ پھر تخت پر قرار پکڑا ۔ اس کے سوا تمہارے لئے کوئی دوست اور سفارشی نہیں ہے ۔ پھر کیا تم نصیحت پذیر نہیں ہوتے ؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسئلہ استواء ف 2: ایام سے مراد بارہ گھنٹے کے دن نہیں ہیں ۔ بلکہ لغۃ طویل مدتیں اور فرصتیں مقصود ہیں ۔ جن میں کئی قرنوں اور صدیوں کی سمائی ہوسکتی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک دم پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ بتدریج پیدا کیا ہے ۔ جس میں کئی قرن صرف ہوئے ہیں ۔ اور اس ساری مدت کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے *۔ استوا علی العرش کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ۔ کہ پہلے اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیا جائے ۔ کہ خدا کی تنزیہ ہر لحاظ سے مقدم ہے ۔ اور اصل عقیدہ ہے سلف سے لے کر خلف تک سب کا ایمان ہے ۔ کہ ہمارا خدا زمان ومکان کی قیود سے بےنیاز ہے ۔ اس کا تعلق کائنات سے قومیت کا ہے ۔ احتیاج کا نہیں ہے ۔ اس کے بعد اب ظاہر ہے ۔ کہ استواء کے دو معنے ہونگے ۔ جو کسی طرح بھی اس کی شان حمدیت اور ذات احدیت پر اثرانداز نہ ہوں اور وہ یہ ہیں ۔ کہ عرش حکومت پر استواء سے مراد تدبیرات کو فی کو اپنے احاطہ اختیار میں لینا ہے ۔ اور آسمان سے ان امور کو ساری دنیا میں بلکہ تمام عوالم میں نافذ کرتا ہے *۔ اللہ تعالیٰ بطور تفسیر کے فرماتا ہے یدبر الافرمن السماء انی الارض ۔ یعنی وہی آسمان بلند سے زمین تک اپنے اوامر کو بھیجتا ہے ۔ جس طرح کہ انسان کا دل یا دماغ یا جس شاعرہ ان کے ارادہ وامر کا مرکز یا بڑا دفتر ہے ۔ کہ یہیں سے تمام اعضاء وجوارح کو احساس ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ خوداس کا تعلق اس مرکز سے صرف اتنا ہے کہ وہ اس کا ایک حصہ ہے ۔ اسی طرح کائنات میں عرش کو مثل دل کے مقام حاصل ہے ۔ کہ تمام تدبیریں اسی بڑے دفتر سے نافذ ہوتی ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ یہ دل کائنات کا حصہ ہے ۔ خدا کا حصہ نہیں ہے ۔ خدا تو اس سارے نظام کو پیدا کرنے والا ہے ۔ یہ مثال ناقص ہے ! اور مسئلہ استواء کو سمجھانے کے لئے کوئی مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو ناقص نہ ہو ، مگر اس مسئلہ پر اس مثال سے ایک گونہ ضرور روشنی پڑتی ہے * حل لغات :۔ مقدارہ انف سنۃ ۔ مقصد یہ ہے کہ اعمال واوامر کو وہ بقضائے حکمت ایک دن میں اپنے حضور تک پہنچادیتا ہے حالانکہ تمہارے اندازے کے مطابق ان کو ایک ہزار سال میں کہیں پہنچنا چاہیے * علم الغیب ۔ یعنی جو باتیں تم سے اوجھل ہیں وہ ان کو بھی جانتا ہے * دوحہ ۔ اضافت محض تشریف وتفضل کے لئے ہے *