سورة لقمان - آیت 32

وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جبکہ ان کی مثل سائبانوں (ف 1) کے موج ڈھانپتی ہے تو وہ اللہ کو خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے پکارتے ہیں ۔ پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو کوئی ان میں بیچ کی چال پر ہوتا ہے اور ہماری آیتوں کا انکار صرف قول کے جھوٹے ناشکری (ف 1) ہی کرتے ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سمندر بہت بڑی نعمت ہے ف 1: سمندر پہلے صرف پانی کا ایک اٹھاہ ذخیرہ تھا اس کے بعد اس میں کشتیاں چلنے لگیں اور تجارت کے غیر معلوم دروازے کھلے اور پھر اس کو اقتصادی دنیا میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ۔ چنانچہ آج جس کے پاس بحری قوت زیادہ ہے ۔ وہ سب سے زیادہ خوشحال ہے اور سب سے زیادہ مضبوط ہے قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال پیشتر سمندر کی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ ان فی ذالک لایات لکل صبار شکور کو سمندر کے فوائد ان لوگوں پر ظاہر ہوں گے جو مصائب کو برداشت کرینگے اس کی مواج اور متلاطم لہروں سے متصادم ہوجانے کی سکت رکھتے ہوں ۔ اس کی گہرائیوں اور وسعتوں سے ڈر نہ جائیں جو اس کے سینے پر کشتیاں کھیلنا اور جہاز چلانا جانتے ہوں یعنی جنہیں معلوم ہو ۔ کہ سمندر کن بےشمار فوائد کا حاصل ہے ۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ مسلمان جب زندہ تھے ۔ اس وقت ان کے بحری بیڑے دور ودرازسمندروں میں رواں دواں رہتے ۔ اور وہ قرآن کی اس آیت کو خوب سمجھتے تھے ۔ آج وہ غلام ہیں ۔ اس لئے سمندر کی تمام برکات سے محروم ہیں ۔ اب مسلمان صرف حقیر قسم کا ملاح ہے ۔ مچھیرا ہے ۔ ! اور جال بنتا ہے تاکہ جب مسلمان قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ غلامی کے ذلیل لوگ عذاب میں گرفتار ہے *۔ حل لغات :۔ سخر الشمس ۔ شان کے علوئے مرتبت کی طرف اشارہ ہے کہ سورج ایسی چیز بھی انسانی مفاد کے لئے ہے * الظلال ۔ ظللۃ کی جمع ہے ۔ بمعنی شائبان *۔ ف 1: قرآن حکیم میں یہ خوبی ہے کہ وہ نہایت خوش اسلوبی سے ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس آیت میں سمندر کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ جب توحید کے یہ منکرین سمندر کا سفر کرتے ہیں ۔ اور جب طوفان ان کو گھیر لیتا ہے ۔ اور موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں ۔ تو یہ مارے ڈرکے صرف ایک خدا کو جاننے لگتے ہیں ۔ اور اس وقت اپنے تمام معبودان باطل کو بھی بھول جاتے ہیں پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیا جاتا ہے ۔ تو کچھ لوگوں کے سوا اکثر بھر شرک وانکار کی لعنتوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ یعنی صرف مصیبت کے وقت یہ لوگ فطرت کی آواز کو سننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جہاں آسودگی اور تنعم کا دور شروع ہوا ۔ اور یہ پھر بھولے *۔