وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
اور ہم نے لقمان کو عقل مندی دی کہ اللہ کا شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے اور جو کوئی کفر کرتا ہے اللہ بےپرواہ قابل تعریف (ف 2) ہے۔
حضرت لقمان (ف 2)معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لقمان پیغمبر نہیں تھے مگر ایک صالح اور دانشمند آدمی تھے ۔ اور جہاں تک اس وقت کے عربوں کا تعلق ہے ان میں ان کے حکیمانہ اقوال کا کافی چرچا تھا ۔ یہی وجہ ہے قرآن حکیم نے ان کا تذکرہ اس طرح کیا ہے کہ گویا پہلے سے مخاطبین انہیں جانتے ہیں ۔ حکمت کے معنی لغت میں کسی چیز کی حقیقت پہچاننے کے ہیں اور اصلاح میں دانائی اور درست کرداری سے تعبیر ہے اور اس کی اعلیٰ ترین قسم وہ ہے جس میں دنیا کے کے معاشرتی عقدوں سے بحث کی جائے ۔ اور یہ بتایا جائے کہ کن اصولوں کے ماتحت ایک انسان انسانی ہیئت اجتماعیہ کا بہترین رکن بن سکتا ہے ! اور کس طرح اس کا وجود اپنے ابنائے جنس کے لئے باعث رحمت وبرکت ہوسکتا ہے ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے کہ لقمان کو سب سے بڑی حکیمانہ باتیں عطا کی گئی تھیں ۔ وہ یہی تھیں کہ وہ شاکر تھے ۔ یعنی وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ کے انعامات مادی وروحانی کو استعمال کرنا اور ان کو ظاہر کرنا ، یہ سب سے بڑی فضیلت ہے ۔ان کو یہ معلوم تھا کہ کون سے اعمال احاطہ شکر میں داخل ہیں ۔ اور جن کو مان کر انسان بہترین معاشرتی فضائل کو حاصل کرسکتا ہے ۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہ سب قول ، عمل ، عقیدہ اور اللہ نعمتوں کا اقرار ، انسان کے اپنے فائدے کے لئے ہے ۔ اللہ مطلقاً حمد و ستائش سے بےنیاز ہے وہ فی نفسہ لائق حمد اور قابل تعریف ہے ۔ چنانچہ ان کی بات سے یہ سب چیزیں واضح ہیں ۔ حل لغات: غَنِيٌّ۔ بےنیاز ۔ یعنی جمال وکمال کا وہ نقطہ ارتقاء جو ہر ستائش سے بالا اور بےپروا ہو ۔