فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس تو (اے محمد (ﷺ) ! ) ایک طرف کا ہوکر اپنا منہ دین کے لئے سیدھا رکھ ۔ اللہ کی فطر ت جس پر اس نے آدمیوں کو پیدا کیا ہے (لازم پکڑ) اللہ کی پیدائش میں تبدیلی نہیں یہ (ف 3) سیدھا دین ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔
مذہب کا جدید ترین معیار (ف 3) آج مذہب کے لئے جدید ترین معیار صداقت یہ ہے کہ وہ فطرت کے آئین کے مطابق ہو ۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان قوانین میں جو مہروماہ میں اور جبل وکاہ میں کارفر ما ہیں ۔ اور ان اخلاقی قوانین کے متبع وسرچشمہ میں کوئی فرق نہیں ۔ جن کو ہم شریعت یا مذہب کہتے ہیں ۔ وہ اقلیم مادیت کے ضابطے ہیں ۔ اور یہ دنیائے روحانیت کے قوانین ۔ دونوں کا سرچشمہ فطرت اور اس کا غیر مبدل حسن ہے ۔ قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس حقیقت کو اتنا جامع اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ مذہب کا اتنا تخیل اور اتنا واضح انداز بیان ! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اس ذات کا کلام ہے جس کی نظر زمان ومکان کی بعید ترین ومعقول سے بھی کہیں آگے ہے ۔ ارشاد ہے کہ اطاعت وفرمانبرداری کا جذبہ فطری ہے ۔ اور غیر مبدل اور یہی دین قیم ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ۔ اور وہ مذہب کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔