سورة الروم - آیت 30

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

پس تو (اے محمد (ﷺ) ! ) ایک طرف کا ہوکر اپنا منہ دین کے لئے سیدھا رکھ ۔ اللہ کی فطر ت جس پر اس نے آدمیوں کو پیدا کیا ہے (لازم پکڑ) اللہ کی پیدائش میں تبدیلی نہیں یہ (ف 3) سیدھا دین ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

مذہب کا جدید ترین معیار (ف 3) آج مذہب کے لئے جدید ترین معیار صداقت یہ ہے کہ وہ فطرت کے آئین کے مطابق ہو ۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان قوانین میں جو مہروماہ میں اور جبل وکاہ میں کارفر ما ہیں ۔ اور ان اخلاقی قوانین کے متبع وسرچشمہ میں کوئی فرق نہیں ۔ جن کو ہم شریعت یا مذہب کہتے ہیں ۔ وہ اقلیم مادیت کے ضابطے ہیں ۔ اور یہ دنیائے روحانیت کے قوانین ۔ دونوں کا سرچشمہ فطرت اور اس کا غیر مبدل حسن ہے ۔ قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس حقیقت کو اتنا جامع اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ مذہب کا اتنا تخیل اور اتنا واضح انداز بیان ! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اس ذات کا کلام ہے جس کی نظر زمان ومکان کی بعید ترین ومعقول سے بھی کہیں آگے ہے ۔ ارشاد ہے کہ اطاعت وفرمانبرداری کا جذبہ فطری ہے ۔ اور غیر مبدل اور یہی دین قیم ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ۔ اور وہ مذہب کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔