سورة العنكبوت - آیت 66

لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تاکہ جو ہم نے انہیں دیا ہے اس کی ناشکری (ف 1) کریں اور فائدہ اٹھائیں ۔ سو آگے وہ معلوم کرلیں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

توحید کا اقرار ف 1: توحید کے متعلق اسلامی نظریہ یہ ہے ۔ کہ فطرت کا عقیدہ سے دل کی آواز ہے ! اور ایسی صداقت ہے جس کا انکار ہوش وحواس کی سل امتی میں قطعاً ممکن نہیں ۔ اس لئے قرآن حکیم فرمتا ہے ۔ کہ جب ان مکہ کے مشرکوں سے پوچھا جاتا ہے ۔ کہ بتاؤ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے ؟ تو یہ لوگ بےاختیار چلا اٹھتے ہیں کہ خدا نے وہی رزق کو بانٹتا ہے ۔ اور کشائش وتنگی اسی کے دست قدرت میں ہے ۔ اسی طرح جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جس وقت زمین اپنی تروتازگی کھو بیٹھتی ہے ۔ باغ وراغ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے ہیں ۔ جب کھیتیاں ختک ہوجاتی ہیں ۔ تو اس وقت کون پانی برساتا ہے ۔ کس کی رحمت جوش میں آتی ہے ۔ اور کون چند لمحوں میں جل تھل کردیتا ہے ۔ ان سب باتوں کا جواب یہی ہے کہ خدا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت جو ان کے لبوں تک آتی ہے ۔ دراصل فطرت کی آواز ہے ۔ دل کی گہرائیوں کی صدا ہے ۔ مگر یہ لوگ دنیا کی عشرتوں میں پڑ کر اس درجہ غافل ہوجاتے ہیں ۔ کہ دل کی باتیں سننے کے لئے ان کے پاس فرصت ہی نہیں رہتی ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روشنی ماند پڑجاتی ہے ۔ یہ آواز ہزاروں خواہشوں تلے دب جاتی ہے اور اس وقت ظاہر ہوتی ہے ۔ جب یکایک کوئی مصیبت ان کو گھیر لیتی ہے ۔ اور یہ مخلصی کی کوئی راہ نہیں پاتے ۔ جب کشی میں سوار ہوتے ہیں ۔ اور موجیں چاروں طرف سے موت کا پیغام لے کر آتی ہیں ۔ اور بڑھ بھ کر ان کو سناتی ہیں ۔ اور اس شوروغل میں یہ حواس کھو بیٹھتے ہیں ۔ تو ٹھیک اس وقت فطرت خوابیدہ بیدار ہوتی ہے ۔ اور دل کی روشنی برروئے کار آتی ہے اور خواہشات سے دبی ہوئی آواز لب تک آنے کی جرات کرتی ہے ۔ اس وقت یہ لوگ بڑے خلوص اور بڑی صداقت سے اللہ کو یاد کرتے اور جب یہ مصیبت دور ہوجاتی ہے ۔ زندگی کے جذبات پھر ان کو اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں ۔ اور یہ پھر خدا کو بھول جاتے ہیں اور پھر دیوی دیوتاؤں کو پوجنا شروع کردیتے ہیں ۔ انسان کی نفسیات کی اور عبرت کی کتنی سچی تصویر اللہ نے کھینچی ہے ؟ کہ یہ مصیبت کے وقت تو اللہ کی طرف دوڑتا اور لپکتا ہے ۔ مگر مسرت میں اس کو بھول جاتا ہے * ان آیات کے ضمن میں بتایا ہے کہ وہ دنیا جو اس کے لئے گمراہی کا باعث ہوتی ہے ۔ اپنے رتبے اور مقام کے لحاظ سے کس درجہ حقیر اور ذلیل ہے ۔ اس کی بےثباتی اور فنا پذیری کو دیکھئے ، تو معلوم ہوتا ہے ۔ محض گھروندا ہے ۔ ایک کھیل ہے ۔ تماشا ہے ۔ مگر لوگ بےسمجھ ہیں ۔ کہ اس پر جان تک فدا کررہے ہیں ۔ کیا دانائی اور عقلمندی کا یہ تقاضا نہیں ۔ کہ دائمی اور ابدی زندگی کے لئے کوشش کی جائے ۔ اور آخرت کے لئے زاد سفر مہیا کیا جائے * دارآخرت کو لھی الحیون کے لفظ سے تعبیر کرکے قرآن کے اس نظریہ کی تائید فرمائی ہے ۔ کہ زندگی غیر متقطع اور مسلسل ہے اور موت کے معنے محض یہ ہیں ۔ کہ انسان ایک عارضی لباس کو کھینچی کی طرح اتار پھینکتا ہے ۔ اور ایک دوسرا جادوانی لباس پہن لیتا ہے *۔