بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ
بلکہ یہ قرآن تو کھلی آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے ۔ اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم (ف 3) ہیں
قرآن محفوظ ہے ف 3: اس آیت میں قرآن کی اس فضیلت کا اظہارہے ۔ کہ یہ کتاب گذشتہ کتابوں کی طرح ضائع نہ ہوگی ۔ اور کسی طرح کی تحریف اور تبدیلی اس میں نہیں ہوسکے گی ۔ کیونکہ اس کی حفاظت صرف کاغذ اور روشنائی قلم پر موقوف نہیں ۔ بلکہ یہ سفینوں کے ساتھ بےانتہا انسانوں کے سینوں میں موجود رہینگی ۔ چنانچہ آج تمام دنیا کی مذہبی کتابوں میں یہ درجہ صرف قرآن مجید کو حاصل ہے کہ اس کا لفظ لفظ اہل علم کے حافظے میں مرتسم ہے * یہ ہوسکتا ہے کہ مذاہب پر ایسی آفت آئے ۔ کہ اس کا سارا ذخیرہ دینی تلف ہوجائے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ قیامت تک قرآن کو کسی نوع کا صدمہ پہنچ سکے ۔ جب تک ایک حافظ قرآن بھی زندہ ہے ۔ اس وقت تک اسلام کی تعلیمات زندہ ہیں غور فرمائیے ۔ آج ویدوں کے محققین بر ملا کہہ رہے ہیں کہ ان کے مشن میں مخالفین نے یہ بہت کچھ گھٹا بڑھا دیا ہے ۔ تورات مدت ہوتی کہ یہودیوں کی چیرودستیوں کی وجہ سے ناپید ہے اور انجیل کا تو دوسری صدی عیسوی تک تو اور روزگار میں شمار ہوچکا تھا ۔ اور اہل نسخہ مفقود تھا ۔ تیسری صدی میں تو جعلی انجیلوں کی یہ کثرت تھی کہ جامعین کے نسخوں کے مقابلہ کرنے میں سخت مشکلات پیش آئیں ۔ اور ان کو اعتراف کرنا پڑا ۔ کہ کوئی نستخہ قابل اعتماد نہیں * مگر قرآن کو دیکھئے کہ لیل ونہار کی ہزاروں گردشوں کے بعد بھی اسی شکل میں اس کو حضور ؐنے پیش کیا تھا ۔ اس وقت تک ایک حرف بلکہ ایک زیر یا زبر کا بھی فرق نہیں ہوا ۔ اسی وجہ سے آج بھی مخالفین یہ کہنے پر مجبور ہیں ۔ کہ قرآن یقینا ہر قسم کی تخریفات سے پاک ہے *۔ حل لغات :۔ یجھد جحد سے ہے بمعنے انکار *