وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اور اس سے پہلے (ف 2) تو نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لکھتا تھا اگر ایسا کرتا ہوتا تو اس وقت البتہ یہ جھوٹے شبہ کرسکتے تھے
امی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ف 2: اس آیت میں قرآن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان امت کو پیش کرتا ہے ۔ کہ وہ شخص جس نے توحید کے اسرار ورموز کو وہ شگاف طور پر بیان کیا جس نے انسانوں کی صحیح رانمائی کی ۔ جس نے مذہب کی مشکل لتھیوں آن کی آن میں نہایت آسانی سے سلجھادیا ۔ جس نے نفس عقل کو حیران وششدر کردیا ۔ جس کی حکمت حکمت بانعہ جس نافرمان فرمان فطرت ۔ جو دنیا جہان کا محبوب ہے ۔ جس کے ادنی خادموں کی غلامی فلسفہ نے صدیوں تک کی ۔ جس نے قرآن ایسی عظیم الشان کتاب پیش کی جس نے قیامت تک کے لئے دماغوں کو مخاطب کرکے کہا ۔ کہ اگر تمہیں اس کی عظمت میں کلام ہے ۔ تو آؤ اس کا مقابلہ کرکے دیکھ لو ۔ وہ امی تھا ۔ اس نے کسی شخص کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا ۔ وہ ذہن وقلب کے لحاظ سے کسی انسان کا ممنون احسان نہیں ۔ ورنہ کہنے والوں کو موقع ملتا ۔ کہ یہ کلام سن کر اپنا کلام ہے ۔ جو اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے *۔