سورة البقرة - آیت 26

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بیشک خدا مچھر کی یا اس سے اوپر شئے کی مثال بیان کرنے سے نہیں شرماتا ۔ پھر وہ جو ایمان دار ہیں جانتے ہیں کہ وہ انکے رب کی طرف سے ٹھیک ہے ۔ لیکن جو کافر ہیں سو کہتے ہیں کہ اللہ کو ایسی مثال کی کیا غرض تھی ؟ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا اور بہتیروں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اور صرف فاسق (بدکار نافرمان) لوگوں کو ہی اس سے گمراہ کرتا ہے (ف ١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خائب (ف ١) وخاسر لوگ : فلاح وسعادت کی راہ ایمان وعمل کی راہ ہے ۔ وہ جو فاسق ہیں اللہ کی حدود کی پرواہ نہیں کرتے ، ان کے لئے خسارہ ہے ۔ نہ دنیا میں وہ کامیابی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ ہے ، منافق کی تین علامتیں ہیں : ۔ (ا) نقض عہد ، یعنی خدا کے بنائے ہوئے اور بندھے ہوئے قوانین کا توڑتا ۔ (ب) علائق ضرورت سے قطع تعلق یعنی ان تمام رشتوں سے تغافل جو انسانی فلاح وبہبود کے لئے از بس ضروری ہیں ۔ (ج) فساد فی الارض ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ رب فاطر کے بتائے ہوئے قوانین کا خیال نہیں رکھتے جو اپنوں سے دشمنوں کا سا سلوک کرتے ہیں ، جو ساری زمین میں فتنہ وفساد کی آگ کو روشن رکھتے ہیں ، ان سے کوئی بھلائی کرے گا اور وہ کس طرح ایک سعادت مند انسان کی زندگی بسر کرسکیں گے ۔