سورة القصص - آیت 47

وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور (ف 1) یہ نزول قرآن اس لئے ہے کہ (مباوا) ان اعمال بد کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ۔ ان پر کوئی آفت پڑے تو وہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے تونے کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کو مانتے اور مومنوں میں ہوتے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منکرین قرآن کی بہانہ جوئی ف 1: لو لا ان تصیبھم میں لولا امتناعیہ ہے اور اس کی خبرمحذوف ہے اور دوسرا لولا تخفیفہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہم نے جو آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ۔ تو محض اتمام حجت کے لئے کیونکہ یہ لوگ اس قسم کے ہیں ۔ کہ جب ان کو مصیبت پیش آئی ہے ۔ اور عذاب الٰہی کو دیکھتے ہیں ۔ تو اس وقت محشر سے کہتے ہیں کہ لو لا ارسلت الینا رسولا ۔ یعنی مولا آپ نے ہم میں رسول کیوں مبعوث نہیں فرمایا کہ ہم اس کی پیروی کرتے ۔ اور گناہ ومعصیت کے کاموں کو چھوڑ دیتے ۔ پھر جب وہ وقت آگیا کہ اللہ نے آپ کو حق وصداقت دے کر ۔ تو اب اگر نادانی یہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی تورات کی طرح کی کتاب ملنا چاہیے تھی ۔ قرآن تو ہم نہیں مانتے ۔ کیونکہ یہ کسی قدر مختلف ہے ۔ کیا ان کو یہ معلوم نہیں ۔ کہ انہیں کے خواجہ تاشوں نے تو رات کا بھی انکار کیا تھا ۔ اور موسیٰ وہارون کے متعلق صاف کہہ دیا تھا ۔ کہ کہ یہ دو جادو گر ہیں ۔ ہم ان کو نہیں تسلیم کرتے * ارشاد ہے ۔ ان سے کہو ۔ کہ اگر تمہارے پاس تورات و قرآن سے کوئی بہتر کتاب موجود ہے تو اس کو پیش کرو میں اس کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہوں * غرض یہ ہے کہ ان لوگوں کی بہانہ جوئی اور عذر ومعذرت کو دور کرنے کے لئے ہم نے رسول بھیجا ۔ کہ یہ نہ کہیں ۔ اللہ نے ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کیا ۔ ورنہ حق واضح تھا ۔ اور بعثت رسول کی چنداں ضرورت نہ تھی * فرمایا ۔ کہ اگر یہ لوگ تمہارے اس سوال کا جواب نہ دیں اور ان دونوں جلیل القدر کتابوں سے بہتر کوئی کتاب نہ لاسکیں ۔ تو پھر آپ سمجھ لیجئے ۔ کہ یہ لوگ نیک نیت نہیں ہیں محض ہواؤہوس کے بندے ہیں ۔ اور انکار کے لئے بطور بہانہ وضد کے اس طرح کی باتیں کہتے ہیں * اس کے بعد اس حقیقت کو بیان کیا کہ اصل گمراہی کیا ہے یا اور کون شخص راہ راست بےبھٹکا ہوا ہے ۔ اور کون ظالم ہے !*