وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
خوشخبری دے ان کو جو ایمان لائے اور نیک کام کئے یہ کہ ان کے واسطے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جب (وہاں کا) کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے ، یہ تو وہی پھل ہےجو ہم کو پہلے ملا تھا اور ان کے پاس ایک طرح کے (پھل) لائے جائیں گے اور وہاں ان کے لئے ستھری عورتیں ہوں گی اور ہمیشہ وہاں رہیں(ف ١) گے۔
ایک تمثیل : جنت کا ذکر کرکے یہ فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی حقیقت اصل میں ایک حقیر مچھر سے بھی کم ہے مگر یہ کور باطن لوگ جنت کے لذائذ کو سن کر معترض ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہی چیزیں تو ہم چاہتے ہیں مگر وہ لوگ جو اہل حق وصداقت ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے ، ورنہ جنت کے کوائف نہایت لطیف ‘ پاکیزہ اور بالا از حواس ہیں ۔ سورۃ مدثر میں اہل جہنم کا ذکر کرکے بالکل انہیں کلمات کو دہرایا ہے کہ یہ لوگ یہ چیزیں جہنم کے متعلق سن کر کہتے ﴿مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا ﴾ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمثیل سے مراد جنت ودوزخ کے کوائف کی تمثیل ہے ، ورنہ سارے قرآن میں خدا تعالیٰ نے کہیں مچھر کا ذکر نہیں کیا اور ربط آیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے یہی معنی لئے جائیں ۔ واللہ اعلم ۔ حل لغات : جَنَّاتٍ : جمع جنۃ ، باغ ۔ محفوظ ۔ خَالِدُونَ ۔ جمع خالد ، ہمیشہ رہنے والا ۔ مادہ خلود بمعنی دوام ۔