وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ
اور بےشک تیرا رب لوگوں پر فضل کرتا ہے ۔ لیکن اس میں بہت ناشکرے (ف 1) ہیں۔
منکرین کے لئے وعدہ عذاب کی تکمیل : (ف 1) منکرین نے جب یہ سنا کہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے اور سب لوگوں کو عالم موت سے نکال کر عالم حشر میں اٹھا کر کھڑا کیا جائیگا ۔ تو وہ ہنسے اور کہنے لگے یہ کیونکر ممکن ہے کیا ہم اور ہمارے باپ دادا دوبارہ زندگی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں گے ! یہ تو محض افسانہ معلوم ہوتا ہے اور اس قسم کے افسانے ہم پہلے بھی سن چکے ہیں ۔ اور اس کے بعد کمال شوخ چشمی سے کہنے لگے کہ وہ وعدہ عذاب کب آئے گا ! جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ مکذبین کے لئے مقدر ہے اور جس کے لئے اقوام باطل کی تاریخ ہم سے بیان کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے ﴿فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ﴾ارشاد ہوتا ہے کہ وہ وعدہ عذاب بہت قریب ہے تم عجلت نہ کرو ۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتے کہ حتی الامکان اس کے بندے اس کے غضب وغصہ کا باعث ہوں ۔ وہ ہمیشہ عفو وکرم سے کام لیتا ہے ۔ ہاں اگر بندوں کو اسی بات پر اصرار ہو کہ عذاب آئے اور ضرور آئے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کی تادیب واصلاح کے لئے ضرور عذاب بھیج دیتے ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ والوں کی سرکشیاں حد سے بڑھ گئیں ۔ اور انہوں نے طے کرلیا کہ ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جائے گا ۔ تو معرکہ بدر کے سامان پیدا ہوگئے ۔ اور مشرکین نے اس معرکہ میں سخت شکست کے سامان پیدا ہوگئے ۔ اور بصد حسرت ویاس باقی ماندہ واپس لوٹے ۔