وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا ! اور بولا لوگوں ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی(ف 1) اور ہمیں ہر شے میں دیا گیا ہے بےشک یہ صریح فضل ہے۔
پرندوں کی بولیاں : (ف 1) فرعون اور حضرت موسیٰ کے قصہ کے بعد داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کے حالات بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ فرعون کی تنگ ظرفی کو ظاہر کیا جائے اور بتایا جائے کہ اللہ کے نیک بندے باوجود تاج اور رنگ کے مالک ہونے کے اللہ کے شاگرد رہتے ہیں اور ازراہ کبروغرور گمراہ نہیں ہوجاتے ، دیکھئے داؤد اور سلمان (علیہ السلام) کو ان کی سیاسی فہم وفراست کا بہرہ وافر دیا گیا ۔ ان کو بتایا گیا کہ کس طرح سلطنت کی حدود کو وسیع کیا جاسکتا ہے اور کس طرح اختیارات کو انسانوں ، جنوں اور پرندوں پر استعمال کیا جاسکتا ہے مگر ان کی سلامتی عقل ملاحظہ ہو کہ وہ دائرہ عبودیت سے باہر نہیں نکلے اور ہمیشہ اس فضیلت وبرتری کو اللہ کی نوازش سمجھتے رہے ۔﴿عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ﴾سے غرض یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں یہ ملک عطا فرمایا ہے کہ ہم پرندوں کی بولیاں سمجھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ ماہرین حیوانات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حیوانات بھی بولتے ہیں اور اپنے مافی الضمیر کو ادا کرتے ہیں اور بعض لوگوں نے تو بعض پرندوں کی آوازوں سے ان کے حروف تک مرتب کئے ہیں اور ان کو سمجھنے کی ابتدائی کوشش بھی کی ہے ۔