فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
سو اللہ سے ڈرو (ف 1) اور میرا کہا مانو
قوم ہود (علیہ السلام) کی سرکشی اور ہلاکت ف 1: جس طرح کفر و انکار کی ماہیت یکساں ہے ۔ اسی طرح ایمان ویقین کی حقیقت ایک ہے ۔ جس طرح آدم (علیہ السلام) نے توحید کی اولین شمع روشن کی ۔ اسی طرحانبیا ما بعد نے تفرید کا اجالا پیش کیا *۔ چنانچہ آپ انبیا کی تعلیم میں ایک نوح کی وحدت دیکھیں گے ۔ اور محسوس کریں گے ۔ کہ ان لوگوں کا منبع ایک ہے ۔ ماخذ ایک ہے ، تعلیم ایک ہے ، اور پیغام ایک ہے اور یہ واقعہ ہے کہ صداقت ہمیشہ حقیقت ہوتی ہے *۔ حضرت ہود نے قوم کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی دعوت دی تھی ۔ اسی طرح حضرت صالح نے فرمایا : کہ دل میں تبدیلی پیدا کرو ۔ قلب سے دنیا کی محبت نکال دو ۔ اور اس کو معارف ایمان سے معمور کردو ۔ اور اتنا پاکیزہ بناؤ کہ گناہ اس میں اپنا نشیمن نہ سناسکے ۔ میں تو معاوضہ نہیں چاہتا ۔ کیا تم سمجھتے ہو ۔ کہ تمہیں دنیا کے عیش وعشرت کے سامان سے ہمیشہ یونہی بہرہ ور ہونے کا موقع دیا جائے گا ۔ اور تم کو چشموں اور باغوں اور کھیتوں اور درختوں میں بلا کسی باز پرس کے جو نشاط رکھا جائے گا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکے گا *۔ مقصود یہ ہے کہ اللہ کے قانون مکافات کی تشریح اور از مکاذات عمل غافل مشو کی تلقین کی جائیے *۔ وتنحتون من الجبال بیوتا فرھین سے غرض یہ ہے کہ تم نے نشاط و بہیت اور تفریح ونزہیت کے پہاڑوں میں اپنے مکانات بنائے ہیں ۔ مگر روح کی نشاط کے لئے بھی تم نے کچھ شوچاہے ۔ ارشاد ہے کہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرو ۔ اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کرو *۔ ولا تطیعوا امر المسرفین ۔ سے مراد یہ ہے کہ نافرمانوں کا کہا نہ مانو ۔ اسراف قرآن کی اصطلاح میں حدود اعتدال سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں ۔ اور مسرف وہ لوگ ہیں جو حدود شریعت کو ملحوظ نہیں رکھتے ۔ اور خواہشات نفس کے پیرو ہیں *۔