الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا
جس نے آسمان (ف 3) اور زمین اور جو ان میں ہے چھ دن میں بنایا ۔ (ف 1) پھر عرش پر قرار پکڑا وہ رحمٰن ہے سو تو اس کا حال کسی خبردار سے پوچھ۔
پیغمبربلا معاوضہ تبلیغ کرتے ہیں (ف 3) یہ اصل میں حضور (ﷺ) کی سیرت کی ترجمانی ہے ۔ آپ (ﷺ) نے تیئس سال تک برابر قوم کو دعوت رشدو ہدایت دی اور پیہم اور مسلسل انسانیت کے ارتقا کے لئے جدوجہد فرمائی ۔ گمراہ اور پست خیال انسانوں کو قصر ذات سے اٹھا کر ہدایت اور عروج کے آسمان تک پہنچا دیا ۔ اور ان سے بےمثل خدمت کا بھی کوئی معاوضہ طلب نہ کیا ۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھا ۔ اور دنیا والوں سے بےنیاز رہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ معاوضہ اور اجر سے مستغنی ہوکر اسلام کی خدمت کرتے ہیں ۔ اللہ ان لوگوں کی بذات خود دست گیری کرتا ہے اور دنیا والوں کو ان کی اعانت پر آمادہ کردیتا ہے آج اگر ہمارے علماء وقائدین کی باتوں میں اثر نہیں ہے باوجود شیوا بیان اور جادہ مقال ہونے کے قوم میں کوئی انقلاب اور تبدیلی نہیں پیدا کرسکتے ۔ تو اس کیوجہ یہی ہے کہ وہ قوم کے محتاج ہیں او قوم کو انکی چنداں ضرورت نہیں ۔ وہ پیشہ ور ہیں اور مجلب منفعت کے لئے دعوت وتبلیغ کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ہمارے مصلحین اور قائدین حضور (ﷺ) کے اسوہ سے کسب انوار کریں ۔ اور اللہ کے دین کی بےمزہ خدمت کریں ۔ آگے اللہ کا کام ہے کہ وہ اپنے ان بندوں کی ضروریات کو پورا کردے ۔ (ف 1): یوم کے معنی عربی میں مدت طویل کے ہیں ۔ بارہ گھنٹے کا دن اس سے مراد نہیں ہے ۔ اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے آسمان اور زمین کو چھ طویل قرنوں میں پیدا کیا ۔ عرش حکومت واقتدار پر جلوہ گر ہونا ۔ اللہ کے شیؤن جمال میں ایک شان ہے ۔ صفت نہیں ۔