وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن ہاتھ میں رکھ لو (ف ٢) ، پھر اگر ایک دوسرے کا اعتبار کرے تو چاہئے کہ وہ شخص جس پر اعتبار کیا گیا ہے اس کی امانت اس کو ادا کرے اور اللہ سے ڈرے ۔ جو اس کا رب ہے ، اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جس نے گواہی کو چھپایا ، اس کا دل گنہگار ہے ، اور خدا تمہارے کام خوب جانتا ہے ۔
(ف ٢) ان آیات میں رہن کی اجازت دی ہے ، اس لئے ناواقفی کے وقت اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔ البتہ یہ ہدایت کی ہے کہ اگر یونہی اعتبار پر کوئی شخص قرض دے دے تو مدیون کو چاہئے کہ اس کے حسن سلوک کا خیال رکھے اور اس کی پائی پائی چکا دے ۔ اس کے بعد عام ہدایت ہے کہ کتمان شہادت اسلام میں درست وجائز نہیں کیونکہ اس سے باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ حل لغات : اثم : مصدر اثم ، مجرم ۔ اثم : بمعنی گناہ ۔