سورة الفرقان - آیت 15

قُلْ أَذَٰلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ یہ دوزخ بہتر ہے یا ہمیشہ کا باغ جن کا وعدہ متقیوں کے لئے ہے کہ ان ہی کا بدلہ اور آخری ٹھکانا ہوگا ۔ (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دوزخ بہتر ہے یا جنت والخلد ! (ف ١) یعنی دنیا میں تو یہ لوگ قیامت کو جھٹلاتے رہے پیغمبر کی تکذیب کرتے رہے اور کلام الہی کو افتراء اور جھوٹ کہتے رہے ، مگر جب انہیں ان کے انکار وتمرد کی پاداش میں جہنم کی سزا ہوگی اس وقت یہ جہنمی چاہیں گے کہ موت آکر عذاب کی شدتوں اور تلخیوں کو ختم کر دے ، اس وقت زندگی سے سخت بیزار ہو کر اپنے لئے موت کی خواہش کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کم بختوا سوچو ، کہ کیا یہ دوزخ کی زندگی عذاب ، اور یہ تکلفیں بہتر ہیں ، یا جنت الخلد ، (بہشت جادوانی) بہتر ہے کیا تم تمرد و سرکشی کو پسند کرتے ہو ، جس کی سزا جہنم اور اس کی شدتیں ہیں ، یا جنت پسند کرتے ہو ، جہاں کہ روح وجسم کی ہوگی اور فرحت کا سامان ہے ، اگر جنت پسند ہے تو اس کے لئے انقاء شرط ہے ، اتقاء کے معنے قرآنی اصطلاح میں ہیں کہ قلب ودماغ کو گناہوں اور مصیتوں سے پاک کر دیاجائے ، اور اس میں یہ استعداد پیدا کردی جائے کہ وہ خود بخود گناہوں کو نفرت وحقارت سے دیکھنے لگے ۔ جنت چونکہ مقام رضا ہے ، اس لئے وہاں ہر خواہش کی تکمیل ہوگی یعنی مسلمان دنیا میں مشتبہات کے ارتکاب سے بچتا ہے ، خواہشات وجذبات کو ضبط واعتدال کی حدود میں رکھتا ہے ، اور اللہ کے لئے ہر نوع کے ایثار اور ہر طرح کی قربانی کو عمل میں لاتا ہے ، اس لئے اس مقام جزا میں اس کو پوری آزادی دے دی جائے گی ، اور اس کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے گا ، خود فطرت انسانی کا یہ مطالبہ ہے کہ اس حدود وقیود کی دنیا کے بعد ایک جیسی دنیا ہونی چاہئے ، جو حدود ناآشنا ہو ، جہاں کوئی قید اور پابندی نہ ہو ، جہاں کامل سکون اور کامل اختیارات ہوں ، یہ واضح رہے کہ جنت ایک ارتقائی مقام ہے اور انسان وہاں تک اس وقت پہنچے گا ، جبکہ اس کی خیالات اس کے رحجانات ، جذبات اور خواہشات نہایت لطیف ہوجائیں گے ، اس کے روح جسم میں بہت برا انقلاب پیدا ہوجائے گا ، اس لئے وہاں اس کی خواہشیں اور مطالبے بھی نہایت لطیف اور پاکیزہ فہیم کے ہوں گے ہو سکتا ہے کہ جن چیزوں کو ہم اس دنیا میں پسند کرتے ہیں وہاں ان سے نفرت کریں اور ان کی مطلقا کوئی خواہش نہ ہو ، اس لئے ” لھم فیھا ما یشآء ون “۔ یعنی وہاں جو چاہیں گے ان کے لئے میسر ہوگا ، یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہاں یہاں کی ہر چیز میسر ہوگی ، کیونکہ ہم خود یہ نہیں جانتے کہ وہاں کیا چاہیں گے ، اور کن چیزوں سے نفرت کریں گے ۔