لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور اپنے درمیان رسول (ﷺ) کا بلانا ، ایسا نہ ٹھہراؤ جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو ، اللہ انہیں جانتا ہے جو تم میں سے نظر بچا کر کھسک جاتے ہیں ، سو جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ، چاہیئے کہ ڈریں کہ ان پر کوئی آفت نہ آجائے ، یا انہیں دکھ دینے والا عذاب پہنچے۔ (ف ١)
(ف1) حرمت رسول (ﷺ) کے بارہ میں صاف طور پر فرمایا کہ رسول (ﷺ) کے حکموں کو ایسا نہ سمجھنا جس طرح تم ایک دوسرے کو مخاطب کرکے حکم دیتے ہو یعنی خواہ ان پر عمل کرو یا نہ کرو ، رسول کی ہر بات واجب تعمیل ہے ، اور جو لوگ اس کے ارشادات کو نہیں مانتے ، اور اپنے لئے ان ارشادات کو صحیح اور سند نہیں سمجھتے ان کو ڈرنا چاہئے ، کہ اس انکار کی بنا پر کسی آفت یا اللہ کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔ بعض کی رائے میں آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسول (ﷺ) کو عام تخاطب کے انداز میں مخاطب نہ کیا جائے بلکہ حرمت واحترام کو مدنظر رکھ کر یا رسول اللہ یا نبی اللہ وغیرہ الفاظ سے پکارا جائے ، بعض اکابر کی رائے میں اس سے مراد ہے کہ حضور (ﷺ) کو مخاطب کرنے میں آواز کا لہجہ عامیانہ یا ملائم نہ ہو ، بعض کہتے ہیں کہ یہاں دعا سے مراد بددعا ہے یعنی یہ نہ سمجھو کہ رسول کی بددعا عام لوگوں کی طرح بےاثر ہے ، اس صورت میں بینکم ، علیکم کے مترادف ہوگا ۔ مگر پہلے معنی زیادہ درست اور سباق کے مطابق ہیں ۔ حل لغات : يَتَسَلَّلُونَ: کھسک جاتے ہیں ، آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ فِتْنَةٌ: آزمائش عذاب ، دیوانگی ۔