سورة النور - آیت 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو لوگ کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے میدان میں ریت ، پیاسا اسے پانی سمجھے ، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اسے کچھ نہ پایا ، اور اس کے پاس خدا کو پایا ، پھر اس کو اس کا پورا حساب دیا ، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کفر کی تاریکیاں اور اس کی مثال : (ف ١) اس سے قبل کی تفصیل تھی یہ بتایا تھا کہ ان گھروں میں اللہ کے نور کا اجالا ہوتا ہے جن کا ادب اور احترام اللہ نے ضروری قرار دیا ہے اور جہاں اس کا نام لیا جاتا ہے اور صبح وشام تسبیح وتقدیس کے ترانے گائے جاتے ہیں ، اور وہ لوگ اس نور سے اپنے سینوں کو بھر لیتے ہیں وہ ذکر ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں ، مگر اپنی عبادت پر مغرور ونازاں نہیں ہوتے بلکہ محاسبہ کے خوف سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ، اس کے بعد یہ بتایا تھا کہ اس نور کے منکرین محض غلط توقعات اور موہوم امیدوں میں الجھے ہوتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ باوجود کفر وانکار کے ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور بخش دیگا اور زیادہ باز پرس نہیں کرے گا ، فرمایا ان لوگوں کی مثال اس پیاسے کی طرح ہے جو دور سے ریت کو چمکتے ہوئے دیکھے اور پانی سمجھ کر اس کی طرف دوڑے اور جب اس کے پاس پہنچے تو وہاں جز سراب کے اور کچھ نہ پائے ، یہ لوگ بھی آخرت میں اسی طرح مایوس ہوں گے ، دنیا میں ان کو اپنے اعمال بہت زیادہ وقیع اور قابل لحاظ نظر آتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے حضور میں جا کر انہیں معلوم ہوگا ، کہ یہ محض فریب نگاہ اور نفس کا دھوکا تھا ، اس آیت میں ایک اور تشبیہہ کے ذریعے ان کے اعمال کی بےوقری بیان فرمائی ہے ، ارشاد ہے کہ ان کے اعمال اور اعتقادات کی مثال تاریکی وظلمت میں ایسی ہے جیسے سمندر ہو ، اور اس میں تموج وتلاطم ہو ، اور اوپر سے گھنے بادل چھائے ہوں جس طرح اوپر تلے کی اندھیروں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اسی طرح یہ لوگ اعتقاد وعمل اور کردار وگفتار کی تاریکیوں میں مبتلا ہیں ، کہ قریب ترین ہدایت اور قریب ترین روشنی بھی ان کو محسوس نہیں ہوتی ۔ جو لوگ ذوق ادب رکھتے ہیں وہ محسوس کریں گے کہ اس آیت میں تشبیہات کا وہ نادر مجموعہ ہے کہ عقل انسانی محو حیرت ہے اور سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ الفاظ اس نوع کے استعمال فرمائے ہیں جن سے سمندر کی تاریکیوں کا ہولناک نقشہ کھنچ جاتا ہے ، تشبیہات کی اس سے بہتر مثال کسی ادب میں ملنا ممکن نہیں ۔ الفاظ کے چڑہاؤ اتار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سمندر کے بالکل سامنے ہیں ، اور اس کیفیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ۔ حل لغات : قیعۃ : میدان ، جمع قیعان ۔