وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ
اور تو کہہ اے رب میں شیطانوں کی چھیڑ سے تیری پناہ مانگتا ہوں (ف ١) ۔
ہمزاد شیاطین : (ف ١) قرآن حکیم کا یہ انداز بیان ہے کہ وہ بعض اوقات کچھ احکام واوامر بیان کرتا ہے اور مقصود ان سے یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان احکام واوامر پر عمل پیرا ہیں ، اس لئے ان کے ماننے والے بھی ان کی پیروی کریں اور جو لوگ کہ اس اسلوب خاص سے آگاہ نہیں ہوتے ، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں سے مطلع اور متصف نہیں ، اس لئے حکم دیا جا رہا ہے ، کہ ان سے انصاف پیدا کیجئے ، بہ غلط اور محض غلط ہے اور سراسر قرآن نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ، چنانچہ کوتاہ عقل مشتنریوں اور نافہم آریہ سماجی مبلغوں نے اس نوع کی آیات سے ناجائز استثناء کیا ہے اور کہا ہے ، معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل ودماغ وساس سے پاک نہ تھا ، اصل میں اس قسم کا طرز تخاطب اس لئے اختیار کیا گیا کہ یہ ستایا جائے کہ خدا سے براہ راست تعلقات رشد وہدایت استوار نہیں ہو سکتے ، جب تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وسیط (میڈیم) یعنی میانہ وبرگزیدہ فرار دیا جائے ، اور آپ کی باتوں پر اعتماد نہ کیا جائے ، ظاہر ہے کہ آپ کی ساری زندگی پاکبازی اور عفاف وعصمت کے روشن نمونوں سے معمور ہے ، ان بدباطن لوگوں کو چاہئے ، کہ ان آیات کے ساتھ اس آیت کبری کی سیرت کو بھی اپنے سامنے رکھیں اور پھر فرمان سمجھنے کی کوشش کریں ۔ آج سے چند سال قبل تو جنات اور ان کے اختیارات امتیازی کا انکار لکھا جاتا تھا ، مگر جدید تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ بعض خبیث روحیں یا شیاطین ایسے ہوتے ہیں جو دل ودماغ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یوں سمجھ لیجئے ، جس طرح جراثیم بدن میں بیماری اور مرض پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ روحی جراثیم ، روحانی امراض پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں ۔