سورة البقرة - آیت 269

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جسے چاہے سمجھ دیتا ہے اور جسے سمجھ دی گئی اسے بڑی کو بی ملی اور نصیحت صرف وہی قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں ۔ (ف ١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حکمت اللہ کی نعمت ہے : (ف ١) اسراف وامساک میں فرق محسوس کرنا ، بخل وسخاوت میں تفاوت جاننا اور ہر برائی کے نقصانات اور نیکی کے فوائد کا علم رکھنا حکمت ہے پس وہ لوگ جو دنیا کی بےثباتی و بےوقعتی اور آخرت کی اہمیت وحرمت کو جانتے ہیں حکیم ہیں اور سمجھ دار ہیں اور وہ جو اپنی تگ ودو صرف دنیا تک محدود رکھتے ہیں بےوقوف ہیں ، کیونکہ عاجل کو صرف اس لئے ترجیح دیتا ہے کہ وہ نقد ہے اور آجل کو ترک کردینا کہ وہ نسیہ ہے بغیر یہ جاننے کے کہ دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں ‘ حماقت ہے ، قرآن حکیم حکمت کو پسند کرتا ہے ، اس کے مخاطب بھی سمجھ دار لوگ ہیں ، جو نفع ونقصان پر گہری نظر رکھتے ہیں ، بےپرواہ اور بےخوف انسان اپنے متعلق کچھ نہیں سوچ سکتا ، اس لئے اس سے کوئی توقع ہی نہیں رکھنی چاہئے ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ جسے یہ دانش عطا ہو ‘ وہ گویا دنیا کا بہترین نعمتوں سے بہرہ وار ہے اور وہ جو حکیمانہ مزاج نہیں رکھتا ، وہ اگر دنیا جہان کی چیزیں بھی رکھتا ہو تو حقیقی مسرت سے محروم ہے ،