اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
اللہ ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ زندہ ہے اور سب کا قائم رکھنے والا ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند (ف ٢) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، سب اس کا ہے ، ایسا کون ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے اس کے پاس شفاعت کرے جو کچھ ان کے آگے اور پیچھے ہے وہ جانتا ہے اور یہ لوگ اس کے علم میں سے کچھ نہیں گھیر سکتے مگر جتنا کہ وہ چاہے اس کی کرسی میں زمین و آسمان کی سمائی ہے اور ان دونوں کی نگہبانی اس کو تھکاتی نہیں اور وہ بلند مرتبہ اور سب سے بڑا ہے ۔
بیدار خدا : (ف2) ان آیات میں اللہ کی توحید وصفات کو نہایت خوبصورتی اور نزاکت سے بیان فرمایا ہے جس سے ایک طرف تو رب ذوالجلال کی عظمت وعزت دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف تمام شبہات جو اس کے متعلق یہودیوں اور عیسائیوں کے دلوں میں تھے ‘ دور ہوجاتے ہیں ﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ﴾کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے اللہ اپنی وحدت وقدرت میں بےنظیر ہے ۔ ایک ہے ، اس کا کوئی اقنوم نہیں ‘ جسے اس کا حصہ وعنصر ٹھہرایا جائے ۔ ﴿الْحَيُّ﴾کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور کائنات میں جو زندگی نظر آ رہی ہے ‘ وہ اس کا عطیہ وفیضان ہے ، اسی کیوجہ سے وہ قائم ہے ۔ ﴿الْقَيُّومُ﴾ کا مقصد یہ ہے کہ وہ صرف خالق ہی نہیں اور صرف زندگی عطا کرنے والا ہی نہیں ، بلکہ تربیت وتقویم بھی اسی کا حصہ ہے ، وہ پیدا کرتا ہے ۔ زندگی بخشتا ہے اور اس کے بعد اس کی تربیت اور اصلاح کا بھی خیال رکھتا ہے ۔ ﴿لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ﴾ایک شبہ کا ازالہ ہے ۔ جاہلوں کی طرف سے سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ خدا جس کی سلطنت اتنی وسیع ہے ، وه کیا سوتا بھی ہے ؟ فرمایا کہ وہ تو جھپکی بھی نہیں لیتا یعنی وہ ہمہ آن بیدار رہتا ہے ، اس کا علم ہر وقت اپنا کام کرتا رہتا ہے ۔ ﴿لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ﴾اس کے وسیع اختیارات پر دال ہے ، آسمان کی بلندیاں اور زمین کی پستیاں سب اس کے احاطہ ، اختیار وملک میں ہیں ۔ اس لئے ایسے خدا کے سامنے جھوٹی سفارش کی کسے جرأت ہو سکتی ہے جو آگے پیچھے کی ہر چیز کو جانتا ہو ﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ﴾کے معنی علامہ ابن جریر الطبری نے علم کی وسعت کے لئے ہیں ، یعنی اللہ کا علم ہمہ گیر ہے ، اس سے کوئی چیز خارج نہیں ، چنانچہ کراسی علماء کی جماعت کو کہتے ہیں اور کراسیۃ اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں علم کی باتیں لکھی جائیں ۔ ﴿وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ﴾میں یہودیوں اور عیسائیوں کی تردید ہے ، توراۃ میں لکھا ہے کہ خدا نے سبت کے دن آرام کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا بھی انسانوں کی طرح کثرت کام سے تھک جاتا ہے ، قرآن حکیم فرماتا ہے ، یہ مادی صفات خدا کے وقار کے لئے باعث توہین ہیں ، وہ بلند وبالا ہے ، اس نوع کی صفات کا انتساب اس کی جانب گناہ ہے ۔ حل لغات : كُرْسِيُّ: اصل معنی تکرس کے جمع ہونے کے ہیں کتاب کو چونکہ ورق ورق جمع کر کے بنایا جاتا ہے ، اس لئے کہتے ہیں ۔ ثانوی معنی اس کے علم کے ہیں ۔