سورة الأنبياء - آیت 109

فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ کہ تم سب کو یکساں طور پر خبر دے چکا اور میں نہیں جانتا کہ جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے وہ نزدیک ہے یا دور (ف ٣) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) ان آیات پر سورۃ انبیاء کا اختتام ہے ، اور ان میں صاف طور پر کہہ دیا گیا ہے ، کہ اسلام کی تعلیم بالضرور توحید ہے یعنی باطل اور جھوٹ کے خلاف کھلی جنگ ، حق اور سرکشی کے درمیان ابدی منافرت اور ظلم واستبداد کے مقابلہ میں قوت وغلبہ کا دائمی مطالبہ فرماتے ہیں تم توحید کے مسلک کو قبول کرلو یا انکار کر دو ، ہم بہرحال ایک خدا کی پرستش کریں گے ، اور اسی خدا کی قوتوں سے ڈریں گے ، تمہاری مخالفت اور تمہارے عناد کی قطعا کچھ پروا نہیں کریں گے ۔ ہمارے دلوں میں صرف ایک ذات کی محبت ہے اور صرف اسی ذات کا ڈر ہے ، جو رب السموت والارض ہے ۔ یہ آیات اپنے مفہوم میں مکے والوں کے لئے کھلے اعلان جنگ کی حیثیت رکھتی ہیں ، اس لئے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں مکہ میں اسلام کی حکمت عملی خوف وہراس کی حکمت عملی تھی ، انہیں ان آیات پر غور کرنا چاہئے کہ کس جرات وجسارت کے ساتھ ان لوگوں کو تباہ کردیا گیا ہے ، اور واضح کردیا گیا ہے کہ تم گو انکار کرو مگر حقیقت وہی ہے جس کا ہم اعتراف کرلیتے ہیں ، اور جسے پھیلانا ہم دین کی خدمت سمجھتے ہیں ۔ حل لغات : المستعان : وہ ذات جس سے استعانت اور مدد چاہیں ۔ زلزلۃ الساعۃ : قیامت کا زلزلہ ۔ تذھل : ذھول سے ہے یعنی بھول جانا ، مقصد یہ ہے کہ مصیبت اور خوف کی زیادتی سے تمام دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی وہ اپنے سامنے اپنے بچوں کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گی ، مگر خوف وہراس کے غلبہ کی وجہ سے ان کی جانب متوجہ نہ ہو سکیں گی ،