سورة الأنبياء - آیت 85

وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اسمعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو یاد کر ‘ یہ سب صابر تھے (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ذوالکفل کے متعلق اختلاف ہے کہ ہو زمرہ انبیاء میں سے تھے یا صلحاء امت میں ، قرآن نے انہیں انبیاء علیہم السلام کی صف میں کھڑا کیا ہے جمہور علماء کا مذہب بھی یہی ہے کہ یہ پیغمبر تھے مگر یہ تحقیق نہیں کہ یہ کس عصر کے پیغمبر تھے ۔ ذوالنون حضرت یونس (علیہ السلام) کا لقب ہے ۔ غرض یہ ہے کہ یہ تمام انبیاء صابر تھے ، صالح تھے اللہ پر بھروسہ اور توکل رکھنے والے تھے ، اور ان کے دلوں میں اللہ کی خشیت اور اس کا خوف تھا ۔ ان سب کی خصوصیت جو قرآن حکیم نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہر ابتلاء کے وقت بےچین ہو کر صرف اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے ، صرف اسی کا نام تھا جو ان کے لئے وجہ طمانیت ہوسکتا تھا ، اور صرف اس کی ذات تھی جس پر ان کو ناز اور بھروسا تھا ، اس لئے اللہ بھی ہر مشکل اور مصیبت میں ان کا خیال رکھتا تھا ، اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا تھا ، کیونکہ قاعدہ یہی ہے کہ جو شخص صرف رضاء الہی کے لئے ساری دنیا سے الگ ہوجائے ، اور جس کے تمام تعلقات منقطع ہوجائیں محض اس بنا پر کہ مادیت پرست مخلوق اس کی خدا پرستی سے بیزار اور متنفر ہے ، تو اس وقت خدا کی ذات آپ اس کی ہر طرح پر کفیل ہوجاتی ہیں ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کے اعمال بد سے سخت نالاں تھے اور چاہتے تھے کہ وہ ان کی اصلاح کریں ، مگر جب ان کی نافرمانیاں حد سے گزر گئیں ، تو وہ اس وقت ناراض اور مایوس ہو کر ان سے جدا ہوگئے تاکہ ان کے شر شے محفوظ رہ سکیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کو منظور یہ تھا کہ وہ چندے ان میں قیام کریں ، اور ان کو پاکبازی اور توحید کی تلقین کریں ۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے تھے کہ یونس (علیہ السلام) اس درجہ جلد ہجرت پرآمادہ ہوجائیں ، اور قوم کو بدستور گمراہی اور ضلالت میں چھوڑ جائیں ، اس لئے عین اس وقت جب کہ وہ کشتی میں سوار ہو کر ان لوگوں سے دور نکل جانا چاہتے تھے ، اللہ نے انہیں بڑی آزمائش میں ڈال دیا ، اور اس وقت آزاد کیا ، جب انہوں نے اپنی لغزش کو محسوس کیا اور خلوص قلب سے دعاء مانگی ۔ حل لغات : مغاضبا : ناراض ، ناخوش ، اور بیزار ۔