قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
ہم نے کہا ، اے آگ ابراہیم (علیہ السلام) پر ٹھنڈک اور سل امتی ہوجا ۔ (ف ١) ۔
ابراہیم (علیہ السلام) کا کامل ایمان : (ف ١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب بتوں کی تذلیل وتوہین میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ، توبت پرستوں کے حلقہ میں کھلبلی مچ گئی ، انہوں نے بالاتفاق کہا ، بتوں اور دیوتاؤں کے خلاف اس قسم کا جہاد ناقابل برداشت ہے یہ بہت بڑا گناہ ہے ، اس کی سزا سوائے اس کے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ آگ میں جھونک دیا جائے ، اور کچھ نہیں ، چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں ، اس کو آگ میں ڈال دو ، الاؤ میں جھونک دو ، اور پھونک دو اگر اللہ کی مشیت کچھ اور تھی ادھر یہ انتظام ہو رہے تھے ، کہ توحید کی حمایت کی پاداش میں اللہ کے ایک بندے کو زندگی سے محروم کردیا جائے دوسری جانب رحمت ایزدی ان کی حماقت پر ہنس رہی تھی ، عین اس وقت جب معاندین کی تدبیریں بظاہر کامیاب ہوچکی تھیں ، اللہ کا فضل روئے کار آیا ، اور وہ الاؤ جو جہنم کی طرح منہ کھولے اس حامی حق کا منتظر تھا ، بردوسل امتی سے تبدیل ہوگیا ، اللہ کی رحمت کے چھینٹے اس طرح پڑے ، تمام آگ بجھ کر سرد ہوگئی ، دیکھنے اور غور کرنے کی یہ بات نہیں کہ اس تبدیلی وتحول کے اسباب پر بحث کی جائے ، بلکہ اہل دل کے لئے غور وتفحص کی بات یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں کس درجہ محکم اور مضبوط ایمان تھا ، اور انہیں کتنا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ تھا ، آگ میں کود پڑنا اہل معرفت کے لئے اس تلاش اور کرید سے کہیں اہم ہے ، کہ اس طبعی انقلاب کے اسباب وعلل دریافت کئے جائیں ، پھر یہ بھی بصیرت افروز شے ہے کہ اللہ تعالیٰ گو اپنے بندوں کو کڑی آزمائشوں میں ڈالتا ہے ، مگر رسوا نہیں کرتا ، مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایمان کا امتحان لیا جائے ، اور یہ معلوم کیا جائے ، کہ بندے کے دل میں مولا کے متعلق کس درجہ اعتماد ہے ۔