بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ
بلکہ وہ ان پر اچانک آجائے گی ، پھر ان کو ہکا بکا بنادے گی ، پھر وہ اسے نہ ہٹا سکیں گے اور نہ مہلت پائیں گے (ف ١) ۔
(ف ١) عذاب کے باب میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ مجرموں کو ابتدا میں ڈھیل دی جاتی ہے مگر جب وہ حد مقرر سے آگے بڑھ جاتے ہیں ، اس وقت اللہ کا عذاب اچانک آجاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس عذاب سے بچا نہیں سکتی ، مگر بےوقوف لوگ اس ڈھیل کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال حسنہ کا نتیجہ ہے جو دنیا میں نازونعمت کے سارے سامان ہمیں میسر ہیں ، ورنہ ایک لمحہ بھی ہم دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ مکے والے بار بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کا مطالبہ کرتے ، وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہایت حکمت اور قدرت والی ہے ، جسے جب چاہے ، اپنے مصالح کے ماتحت گرفتار کرلے پھر کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے ۔